مذاکرات کی متواتر حکومتی پیشکشیں عمران خان اور انکے ساتھی اگر اس وجہ سے مسترد کررہے ہیں کہ انکے سیاسی حریفوں کا اقتدار فارم سینتالیس کا نتیجہ ہے تو انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خود انکا اپنا دور حکومت بھی آرٹی ایس بٹھائے جانے کا مرہون منت تھا۔ اور اگر مذاکرات سے انکار کا سبب انکے مطابق یہ ہے کہ بے بنیاد مقدمات کے ذریعے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اپنے دور حکمرانی میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ وہ بھی یہی سلوک کرتے رہے ہیں۔ اس لیے موجودہ حکمرانوں کیساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کی کوئی اخلاقی اور منطقی بنیاد موجود نہیں ۔ بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے ملک میں حکمرانی کی تاریخ کا بیشتر حصہ منصفانہ جواز سے محروم حکومتوں ہی پر مشتمل رہا ہے۔ ساڑھے تین عشروں پر محیط فوجی آمریتوں کا تو آئین و جمہوریت کے منافی ہونا ایک کھلی حقیقت ہے ہی لیکن تقریباً تمام منتخب حکومتیں بھی مشتبہ، غیر شفاف اور طاقتوروں کی مداخلت سے آلودہ انتخابی عمل ہی کا نتیجہ رہی ہیں۔اس لیے ایک مداخلت زدہ الیکشن کے نتیجے میں اقتدار میں آنیوالے سابقہ حکمرانوں کا موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے اس بنیاد پر انکار کہ وہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم نہیں ہوئی، کوئی وزن نہیں رکھتا۔ مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے علیمہ خان اور شیخ وقاص اکرم کے بعد تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’حکومت سے چوری تسلیم کیے بغیر مذاکرات ممکن نہیں‘‘ تاہم اس مؤقف کے جواب میں موجودہ حکمراں کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت بھی تسلیم کرے کہ 2014ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت گرانے کیلئے فوج میں موجود اپنے سرپرستوں کی حمایت کیساتھ تین ماہ کا طویل دھرنا ایک مجرمانہ عمل تھا۔ عدالتی شخصیات اور طاقتور حلقوں کیساتھ ملی بھگت کے ذریعے نواز شریف کی سیاسی عمل سے بے دخلی شرمناک جمہوریت کشی تھی ۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کی خاطر انتخابی عمل سے پہلے، اسکے دوران اور اسکے بعد طاقتور حلقوں کی کھلی مداخلت آئین اور قانون کی سخت توہین اور پامالی تھی۔ پونے چار سالہ اقتدار کے دوران تمام کاروبارِ حکومت اور پارلیمان کی کارروائیوں کا طاقتورحلقوں میں موجود اپنے پروموٹرز کی دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے چلایا جانا جمہوری عمل کے نام پر سنگین مذاق تھا۔
پروجیکٹ عمران خان کے تحت اس ملک میں جوکچھ کیا گیا، اس کے نتائج پوری قوم سیاسی انتشار ، سماجی منافرت اور معاشی مشکلات کی شکل میں آج تک بھگت رہی ہے۔ تحریک انصاف کو وقت کی فوجی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کے کارپردازوں کی بھرپور حمایت کے ساتھ نظام مملکت چلانے کا جو موقع ملا تھا، اگر اسے سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرنے کی کوششوں میں ضائع کرنے کے بجائے نتیجہ خیز عملی اقدامات کی شکل میں عوامی خوشحالی اور قومی ترقی کیلئے صرف کیا جاتا تو انکی حکومت یقیناً اپنی مدت پوری کرتی اور عین ممکن تھا کہ اسکے بعد ہونیوالے انتخابات میں انکی جماعت کسی کی بیساکھی کے بغیر اپنے ہی بل بوتے پر واضح اکثریت حاصل کرلیتی۔ لیکن پونے چار سال کے اس دور میں ایک کروڑ نوکریوں ، پچاس لاکھ گھروں اور ساڑھے تین سو ڈیموں کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر عوام کو دیوالیہ پن کے دہانے پر جاپہنچنے والی معیشت ، بدترین سماجی منافرت اور خارجہ محاذ پر تقریباً مکمل تنہائی کے تحفے ملے۔ اس کارکردگی نے تحریک انصاف کے حامی عوام کو بھی اس سے مایوس کرنا شروع کردیا جس کا واضح اظہار ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے مقابلے میں نون لیگ کے امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں ہونے لگا۔ اسی بنا پر سیاسی تجزیہ کار یہ رائے ظاہر کرتے رہے ہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا تو اسکی کارکردگی کا بوجھ ہی انتخابات میں اسکی شکست کیلئے کافی ثابت ہوتا۔تاہم پھر تحریک عدم اعتماد اس حکومت کے خاتمے کا ذریعہ بن گئی۔ مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت میں اگرچہ یہ احساس پایا جاتا تھا کہ عمران حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ انتخابات میں عوام اسے اسکی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسترد کردیں لیکن اپوزیشن کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ اس حکومت کا جاری رہنا عمران خان کے ہاتھوں نئے آرمی چیف کی تقرری کے ذریعے مبینہ تیس سالہ فیض حمید منصوبے کی تکمیل کا سبب بن جائے گا ۔
پی ڈی ایم حکومت ابتدا میں چاہتی تھی کہ ملک میں جلدازجلد نئے انتخابات کرادیے جائیں لیکن فوجی قیادت نے اصرار کیا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی خاطر ایسا نہ کیا جائے اور معیشت کی حالت بہتر بنائی جائے۔تاہم سخت معاشی اقدامات کے نتیجے میں عوام کی مشکلات بڑھیں اور عمران خان کی جارحانہ سیاست از سرنو انکی مقبولیت بڑھانے کا سبب بن گئی جس کا واضح اظہار آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ہوا۔ اب اصولی بات تو یہی ہے کہ اگر انتخابی معرکہ تحریک انصاف نے جیتا تھا تو حکومت اسے ملتی ۔ لیکن بظاہر اسکے سابقہ دور اقتدار کی مایوس کن کارکردگی اس میں رکاوٹ بن گئی۔ بالادست حلقوں نے ایک بار پھر ملک کی معاشی ابتری اور عالمی تنہائی کا خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا اور یوںاس سال گیارہ مارچ کو موجودہ اتحادی حکومت وجود میں آئی۔ معیشت اور خارجہ محاذ سمیت اسکی نوماہ کی کارکردگی اس عملیت پسندانہ فیصلے کے درست ہونے کا ثبوت ہے جسکے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ جس طرح ایمرجنسی کے قوانین عام حالات کے قوانین سے مختلف ہوتے ہیں،کسی گھر میں آگ لگی ہو تو اسے بجھانے کیلئے کسی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہوا جاسکتا ہے، اسی طرح ملک کو بچانے کیلئے یہ فیصلہ بھی ناگزیر تھا۔ جو چاہے اس فلسفے کو درست مانے اور جو چاہے اس سے اختلاف کرے لیکن اسکی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کو مسترد کرنا ہر گز دانشمندی نہیں۔ملک سے سیاسی انتشار کا خاتمہ آج پاکستان کی لازمی ضرورت ہے اور اس کا حصول قومی مفاد کی خاطر نیک نیتی اور اخلاص کیساتھ ہونیوالے مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔