• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالا ٓخر ہماری پی آئی اے فروخت ہو ہی گئی۔ اِس فروخت کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہماری قومی ائیرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوا کرتا تھا جسکی نہ صرف سروس بہت اچھی اور معیاری تھی بلکہ یہ کافی منافع بخش بھی تھی ۔ کئی دہائیوں تک اِس ائیر لائن نے آسمان میں اپنی شاندار شناخت، پہچان اور باوقار ساکھ کا پرچم بلند کئے رکھا ، پھر نہ جانے کس کی نظر لگی کہ یہ قومی ادارہ تنزلی کی راہ پر چل پڑا سروس کا معیا ر گرنے پر دوسری انٹر نیشنل ائیر لائینز نے کاروباری مواقع ہتھیا لینے میں کوئی غلطی نہ کی۔ اِسکا منافع خسارے میں بدلنا شروع ہو گیا اور یہ خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا قومی ائیر لائن کو نفع بخش ادارہ بنانے کیلئے کئی پاپڑ بیلے گئے اور کئی جتن کیے گئے مگر شاید تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور اب تقریباََ دو دہائیوں کی بیماری اور لاغری کا شکار رہنے کے بعد قومی ائیر لائن فروخت ہو گئی ہے۔ حالات اِس اَمر کے متقاضی تھے کہ یہ نجکاری بہت عرصہ قبل ہی ہو جانی چاہئے تھی کیونکہ روز بروز کے خسارے نے اس ادارے کی کمر کو طویل عرصہ سے مکمل طور پر جُھکا رکھا تھا۔ یہ اَمر اطمینان بخش ہے کہ اِس ادارے کو خسارے کے بھنور اور دلدل سے نکالنے کیلئے اِس کا ہاتھ معروف پاکستانی بزنس گروپ ہی نے تھاما ہے ۔ خُدا کرے کہ عارف حبیب گروپ اِس ادارے کو ایک مرتبہ پھر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں جلد از جلد کامیاب ہو اور وہ دن بہت ہی جلد آئیں کہ قوم اِس ائیرلائن کو کامیابی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں پر صدا راج کرتے ہوئے دیکھے آمین۔ پوری قوم کی دعائیں اور نیک خواہشات عارف حبیب گروپ کے ساتھ ہیں جس نے خالصتاََ وسیع ترملکی مفاد میں خسارے میں ڈوبے ہوئے ادارے کو خرید نے کا جراتمند انہ فیصلہ کیا ہے۔ اگر قومی ائیر لائن کی تباہ حالی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو کئی افسوسناک اور تکلیف دہ پہلو نظر آتے ہیں۔ ہماری یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ سرکاری اداروں میں ضرورت سے کئی سو گنا زیادہ بھرتیاں کرنے کی رسم چلی آرہی ہے۔ اگر کسی ادارے میں دس ملازمین کی ضرورت ہو اور آپ وہاں دو سو افراد بھرتی کر دیں تو پھر اُس ادارے کی بربادی یقینی ہو جاتی ہے بس یہی صورتحال پی آئی اے کی بھی رہی ہے کہ جہاں آنکھیں بند کر کے بڑے پیمانے پر غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں اور پُر کشش عہدوں کی بندر بانٹ کا بازار گرم رہا ۔ اس سارے عمل کے دوران کسی نے یہ محسوس ہی نہ کیا کہ یہ بیش قیمت قومی ادارہ ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ہماری قومی بے حسی اور ناکا می کی زندہ مثال ہے۔اگر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کئی دیگر قومی ادارے بشمول پاکستان اسٹیل مِلز ایک طویل عرصہ سے بدترین مالی خساروں سے دوچار ہیں اور نجکاری کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز 1973 میں قائم کی گئی جو تقریباََ 18000ایکڑز پر محیط ہے۔ بدقسمتی سے اسکی پروڈکشن پچھلی ایک دہائی سے بند ہے اور ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا سکیں، کئی بیل آئو ٹ پیکیجز دئیے جانے کے باوجود ادارے کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکی۔ اس ادارے کے معاملات میں بھی سیاسی مداخلت کی باتیں سُننے میں آتی رہی ہیں۔ اس ادارے میں بھی سیاسی بنیادوں پر غیرضروری بھرتیاں کی گئیں اور انتظامی معاملات بدترین خرابی کے شکار رہے اسکا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ بدقسمتی سے یہ قومی ادارہ بھی نجکاری کا منتظر ہے۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ ادارے جب تک حکومتی کنٹرول میں ہوتے ہیں تو بدترین خسارے اور انتظامی مشکلات کے شکار ہوتے ہیں اور جب پرائیویٹائز ہو جاتے ہیں تو اپنے پائوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ترقی کی راہ پر چل دوڑتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا گڈ گورننس کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان نہیں ہے ، بلاشبہ سرکاری اداروں کی بدحالی کا ذمہ دار کسی ایک دورِ حکومت کو نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ خرابی کا یہ سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ بہرحال مجموعی طور پر ہم سب اِس افسوسناک صورتحال کے ذمہ دار ضرور ہیں۔ بیمار صنعتوں کی بیماری کی وجوہات کا جائزہ لینا اور خرابیوں کا تدارک کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگرچہ معاشی ماہرین کے پاس نجکاری کے عمل کی حمایت اور اسکی افادیت کے متعلق بے شمار دلائل موجود ہیں مگر لا محالہ State-owned enterprises کی ناکامی اور تباہی کی وجوہات کا تعین اور تدارک کرنا ہی گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال ہو سکتا ہے۔ قومی اداروں کی تباہی کی آہیں اور سسکیاں ہمیں کیوں سُنائی نہیں دے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔

تازہ ترین