سردیوں کے دن آتے ہیں تو سائبیریا اور وسطی ایشیا کے پرندے ہجرت کرکے دریائے سندھ کی طرف آجاتے ہیں۔ سات پانیوں کے پار مقیم سندھی دانشور، ہنرمند اور پیشہ ور گھرلوٹ آتے ہیں۔ شام گئے ڈیروں پہ کچہریاں لگتی ہیں۔ گیتوں، قہقہوں، مچھلیوں، سجیوں اور کالے انگور کے دور چلتے ہیں۔ میلے ٹھیلے اور جھوم جھمیلے شروع ہو جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے خانہ بدوش کیفے سے تین روزہ ایک میلے کے بلاوے آتے ہیں۔ اس میلے کے تعارف کیلئے اتنا کافی ہے کہ اسے سندھو تہذیب اور شیخ ایاز سےنسبت ہے۔شیخ ایاز دھرتی کا نمک تھے اور سماج کا ضمیر تھے۔ انکی ایک آنکھ میں آرٹ کے رنگ تھے دوسری آنکھ میں مزاحمت کا نور تھا۔ ایک ہاتھ میں محنت کش کا ہاتھ تھا دوسرے ہاتھ میں شاہ لطیف کا رسالہ تھا۔ شاہ لطیف نے بات جہاں چھوڑی تھی،شیخ ایاز نے وہاں سے آگے بڑھائی تھی۔ شیخ ایاز نے بات جہاں چھوڑی تھی، لوگ اپنے اپنے انداز میں وہاں سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایاز میلہ بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ادبی میلے غنیمت ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اسے متبادل اسپیس کہتے ہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ میلے ہمیں نصابی بندشوں سے باہر نکل کر کچھ سننے سنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اسی کی ضرورت بھی ہے۔ مگر ان میلوں نے لوگوں کونصابی باتوں سے نکال کر کتابی باتوں میں الجھا دیا ہے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ لگے بندھے مصنفین کی کتابیں ہیں اورخشک گفتاری کے طویل سلسلے ہیں۔ مقامی رنگ اور خوشبو سے اس قدر اجتناب ہے کہ لاہور کے میلے میں لاہور اور کراچی کے میلے میں کراچی نظرنہیں آتا۔میلوں کو آرٹ اور کلچر کی ان سرگرمیوں سے پاک صاف رکھا جاتا ہے جو بقائے باہمی کو فروغ دیتی ہیں۔ جو ہر اس شخص کو جوڑتی ہیں جسکے ساتھ جڑنے کی دو وجوہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ کمی اگر کسی میلے میں پوری ہوتی ہے تووہ ایاز میلہ ہے۔ یہاں دماغ کو کچکو کے لگانے والے موضوعات پربات ہی نہیں ہوتی، دل میں حوصلہ اور طبیعت میں تازگی بھر دینے والی غیرکتابی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ جامی چانڈیو اور اکبر لغاری دوپہر میں جس شعر کو پکڑ کر ایاز کی شعریت سمجھا رہے ہوتے ہیں، مانجھی فقیر شام کو اسی شعر کو گنگنا رہے ہوتے ہیں۔ ادیب سیشن میں پتے کی بات کرتا ہے،شیما کرمانی اسی بات کی تشریح بن کر تلوار کی دھار پر رقص کرتی ہیں۔ مجھ غریب کو بیسیوں میلوں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ پہلی بارکسی میلے کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ سب لکھنے پر وہ شرکا بھی مجبور کررہے ہیں جومیلہ شروع ہونے سے بھی پہلے پہنچ چکے ہوتے تھے۔میلہ حیدرآباد میں خانہ بدوش کیفے کے بڑے سے ایک باغ میں ہورہا تھا۔شام گئے ہم پہنچے تویوں لگا جیسے کوئی انتخابی جلسہ ہورہا ہو۔ باہر پارکنگ میں پہیہ دھرنے کی اور اندر پنڈال میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ایک باغ میں لوگوں کو انہماک کیساتھ بیٹھا دیکھ کرلگتا ہے کہ یہی پنڈال ہے۔ مگر یہ پنڈال نہیں ہے۔ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ باہراسکرین کے آگے بیٹھے ہیں۔مگریہ کیا دیکھ سن رہے ہیں؟ کیا اسکرین پر انڈیا پاکستان کا کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ چل رہا ہے؟ نہیں۔ یہ لوگ شناختی بحران کے حوالے سے اے کے بروہی کی نشانی نازش بروہی اور اقبال ترین کی گفتگو سن رہے ہیں۔پنڈال کے داخلی راستے پرایسا رش کہ پاؤں پرپاؤں چڑھے ہوئے ہیں۔اندر ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ لوگ اطراف میں کھڑے ہیں اور بہت سارے زمین پر بیٹھے ہیں۔ اس میں ادھیڑ عمر افراد سے لیکر سولہ سال کی بچی تک، خوشحال گھرانوں سے لیکر محنت کشوں کے بچوں تک سبھی موجود ہیں۔ کوئی یہاں سے باہر نکلنے کا رسک نہیں لے رہا۔باہرایک خلقت گھنٹوں سے اس انتظار میں ہے کہ اندر سے کوئی نکلے توہم اندر جائیں۔ اندر والے دونوں ٹانگیں کرسی پہ چڑھاکر تسلی سے بیٹھے ہیں۔باہر نکلنے کے دور دور تک ارادے نظر نہیں آرہے۔
وہ سندھ طاس معاہدے پر نصیر میمن اوراحسان لغاری کی گفتگو ایسے سن رہے ہیں جیسے مدھر گیتوں کا کوئی سلسلہ چل رہا ہو۔ پنڈال سے نکلنے کا مرحلہ بہت جان لیوا تھا۔ داخلی راستے پر اندر آنے کے شوق میں ایسی دھکم پھیل مچی ہوئی تھی کہ نکلنے کا راستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔اس مرحلے کو بمشکل تمام عبور کیا تو آگے کیا دیکھتے ہیں کہ پنڈال سے زیادہ لوگ اب باہر اسکرین کے آگے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہزادنے کہا،یہ آنے جانے کی تکلیف اپنی جگہ مگر آپ اس میلے کیلئے پبلک کا رسپانس ذرا چیک کریں۔ میں نے کہا، میں اس وقت یہی سوچ رہا تھا۔اس میلے کے سامعین کس قدر سنجیدہ ہیں۔ ایاز میلے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسکی قیادت عورتوں کے پاس ہے۔ یہ عورتیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سورمیاں ہیں۔ شاہ کی سورمیاں ہرمنظر پہ غالب ہوتی ہیں۔اپنا جہان آپ پیدا کرتی ہیں۔ ایاز میلہ ان عورتوں کا بنیادی حوالہ نہیں ہے۔ انکے بنیادی حوالے میں علم و فکر، سیاسی سمجھ بوجھ، تہذیبی شعور اور ثقافتی مزاحمت جیسے عناصر ترکیبی شامل ہیں۔ یہ حوالے سندھ کے تقریباً سبھی دانشوروں کے حصے میں آئے ہیں۔انکی جدو جہد کا حدود اربعہ ڈونر ایجنسیوں نےطے نہیں کیا۔ اسی لئے سندھ کا ایکٹیوزم برائے ایکٹیوازم نہیں ہوتا۔ انکے ایکٹیوزم کے پیچھے سیاسی شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ سیاسی شعور نہ ہوتا تویہ لوگ اس سول سوسائٹی کا حصہ بن چکے ہوتے جسے مشرف دور میں مقامی قوتوں کیخلاف کھڑا کیا گیا تھا۔ اس سول سوسائٹی نے ثقافتوں کوایک مددگار ٹول بنانے کی بجائے اسکے متوازی کچھ ایسے راستے بنائے جو گھر کی طرف نہیں جاتے تھے۔ اس نے غیرسیاسی رجحانات کو فروغ دیا۔ جنرل مشرف کی باقیات کیساتھ ملکر اُس سیاسی ماحول کاشیرازہ بکھیرنےمیں کلیدی کردارادا کیا جو 2008ء کے بعد بمشکل قائم ہوا تھا۔کچھ لوگ ہی تھے جنکے قدم اس فریب خوردہ زمانے میں نہیں ڈگمگائے۔ ایاز میلے کی قیادت کرنے والی یہ عورتیں، ایاز میلے میں حصہ ڈالنے والے یہ دانشور اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیخ ایاز کے آتش دان سے چنگاری چراکر جنہوں نے فکری الاؤ روشن کیا ہو، انکا قبیلہ اور کونسا ہوسکتا ہے۔ ادبی میلوں میں لگے ہوئے کتابوں کے اسٹال آپکو بتاتے ہیں کہ شہر میں مطالعے کارجحان کیا ہے۔ ایک اندازے کےمطابق ایاز میلے میں لوگوں نے کم وبیش پندرہ لاکھ کی کتابیں خریدی ہیں۔ یا پھر اس سے زیادہ۔ واللّٰہ اعلم۔ ایسانہیں ہےکہ کتابیں خریدی نہیں جاتیں۔ بالکل خریدی جاتی ہیں۔ مگر اس میلے میں لوگوں نے وہ کتابیں نہیں خریدیں جو لکھنے والوں نے بات چھپانے کیلئے لکھی تھیں۔وہ کتابیں خریدیں جو لکھنے والوں نے بات بتانے کیلئے لکھی تھیں۔