جس طرح آج کے حکمران اپنا دورِ اقتدار بڑھانے کیلئے ہر قسم کے حیلے بہانے اور حربے آزماتے رہتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے 15 سو قبل مسیح میں بھی بادشاہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے یہی کچھ کیا کرتے تھے۔ چانکیہ ایک ہوشیار، عیار اور ذہین ترین شخص تھا۔ وقتاً فوقتاً حکمرانوںکو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے گر اور فارمولے بتاتا رہتا تھا۔ حاکمِ وقت ان پر عمل پیرا ہوکر اقتدار کے ہزاروں مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باوجود تخت سے چمٹے رہتے تھے۔ اس وقت کے فرمانروا ”چندر گپت موریہ“ کے حکم پر چانکیہ نے ”ارتھ شاستر“ نامی کتاب بھی لکھ ڈالی۔ پس منظر کے طورپر یاد رہے کہ چندر گپت موریہ نے ہندوستان میں ”موریہ“ خاندان کی ایک طویل و عریض سلطنت قائم کی تھی۔ اس کی سرحدیں کابل سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ چانکیہ نے اپنی کتاب میں ایسے گر اور فارمولے بتائے جن کے بغیر لمبی حکومت کرنا ناممکن ہے۔ چانکیہ کی ”ارتھ شاستر “نامی اس کتاب میں سفارت کاری پر پورا ایک باب ہے۔ چانکیہ کی سفارت کاری ”دشمن کا دشمن دوست“ اور ”ہمسائے کا ہمسایہ دوست“ جیسے اُصولوں پر مبنی ہے۔ اگر کسی دشمن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے دشمنوں کو اپنا دوست بنالیں۔ وہ نفسیاتی طورپر ختم ہوجائے گا۔ ریاست کے ہمسائے ہمیشہ آپ کے دشمن ہوتے ہیں۔ ان کو دوست بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ وہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکیں گے۔البتہ ہمسائے کےہمسایوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کو دوست بنائیں، آپ کا ہمسایہ دشمن نفسیاتی اور ذہنی طورپر تباہ ہوجائے گا۔ چانکیہ کی تعلیمات میں وعدہ خلافی، جھوٹ، مکروفریب اور دھوکا دہی سے کام لے کر اپنے مخالف کو زیر کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان جیسے درجنوں ”سنہری اُصول“ تھے جن پر چندر گپت موریہ نے پوری زندگی عملدرآمد کیا اور نتیجے میں وہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کرتارہا۔ چانکیہ کے فلسفے سے اتفاق کرتے ہوئے بعد کے بھی کئی حکمران اس پر عمل کرتے آرہے ہیں بلکہ اب تو ان کے فلسفے کو عالمی شہرت مل چکی ہے۔ ہٹلر کی طرح اس کا بھی کہنا تھا: جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ یقین کرنے لگیں۔ شاید انہیں فلسفوں کو مشعلِ راہ مان کر ہمارے حکمران بھی اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ بعض اوقات خود بھی شرما جاتے ہیں اور قوم سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔اسی طرح جب اٹلی اپنے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ ملکی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عوام ظلم کی چکی میں پس رہے تھے تو ایسے حالات میں ”میکاولی“ اٹلی کے لیے ”نجات دہندہ“ بن کر آیا۔ یہ اٹلی کے شہر ”فلورنس“ کا باشندہ تھا۔ اس نے بھی وقت کے بادشاہ کو بہت سے قیمتی مشورے دیے اور بعدازاں بادشاہ کے حکم پر "The Prince" نامی کتاب لکھی جسے بہت شہرت ملی۔ اس کے چند گر اور اصول یہ ہیں: اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو اولین ترجیح دو اور ان کا حصول سرفہرست رکھو۔ طاقتور حکمران کو کمزور عوام پر ڈرانے، دھمکانے والے قوانین نافذ کرنے چاہئیں تاکہ ان کی سرکشی اور بغاوت کو کچلا جاسکے۔ بے رحمی، سفاکیت اور ظالمانہ روش وہ لازمی اوصاف ہیں جن کے بغیر کسی اچھی حکمرانی کا تصور بھی محال ہے۔ خوف وہراس کی فضا انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاست کی حکمرانی موثر انداز سے عمل پذیر ہوتی رہے۔ دبدبہ، ڈر اور رُعب سے متاثر کرنے کے مواقع سے فائدہ اُٹھاؤ۔ ایک اچھے حکمران کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اُتاردے اور اگر ضرورت سمجھے تو دوستوں کو بھی ماردینا چاہیے۔ خاص کر اپنے رشتہ داروں سے بے حد چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ قرابت داری کی آڑ میں اس کا خون ہی نہ کردیں۔ بادشاہ کو نیک بننے کی ضرورت نہیں البتہ نیکی کا ڈھونگ رچانے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھا بننے کی کوشش حکمرانی کے لیے زبردست خطرہ ہے کیونکہ اس سے عوام جری، دلیر اور بے خوف ہوجاتے ہیں۔ البتہ اچھا بننے کی ایکٹنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی درحقیقت ظلم وسفاکیت کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ لہٰذا حاکم کو چاہیے کہ زبان پر تو رحم وشفقت کے بول ہوں البتہ دل میں فقط سفاکیت اور سنگ دلی ہو۔ ایک اچھے بادشاہ کو کنجوس، لالچی اور بخیل ہونا چاہیے۔ اپنے عوام کی دولت بے دریغ نہیں لٹانی چاہیے البتہ دوسرے ممالک کی دولت لوٹنے میں بے حد ماہر اور طاق ہونا چاہیے۔ کسی کی عزت وتکریم نہیں کرنی چاہیے بلکہ صرف اور صرف اپنی عزت اور تکریم کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ایک بہترین حکمران میں دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا عزم بدرجہ اتم ہونا چاہیے۔ دھوکہ دہی اور فریب کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ ایسے موقع روز روز نہیں آتے اور نادان بعد میں کفِ افسوس ملتے ہیں۔ پرنس کو دوسرے کے حقوق کی فکر میں ہرگز ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔ بالخصوص غیرملکیوں کے نام نہاد حقوق کا تو بالکل خیال نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ ان سے حکومت کو بغاوت کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ البتہ ان پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرنے چاہئیں تاکہ ان کو خوب لوٹا جاسکے اور قومی خزانے کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ حکمران کو تمام فوائد اور سہولیات پردسترس ہونی چاہیے مگر یہ فوائد وسہولیات کسی دوسرے کو ہرگز نہیں عطا کرنے چاہئیں۔ جب تم اپنے دشمن پر غلبہ حاصل کرلو تو اس کے خاندان اور عزیز واقارب کا نشان مٹادو ورنہ اس کے کچھ رشتہ دار کسی زمانے میں قوت حاصل کرکے تم سے تمہاری غلط کاریوں کا انتقام لے سکتے ہیں۔ چانکیہ اور میکاولی کی یہ ساری تاریخ مجھے حکمرانوں کے خوشنما بیانات، عوام کیلئے سنہرے خواب پر مشتمل اشتہارات اور خصوصی ایڈیشنوں سے یاد آئی۔ہمیں نجات دہندہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب اسلام کے زریں اُصولوں پر خلافتِ راشدہ کے دور کو مدنظر رکھ کرلائحہ عمل طے کیا جائے۔ تبھی ہم کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔