• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ایئر لائن پی آئی اے کی گزشتہ دنوں کامیاب نجکاری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سراہا گیا۔ یہ تاریخی نجکاری ایک شفاف عمل کے ذریعے کامیابی سے مکمل ہوئی جس میں عارف حبیب کنسورشیم نے سب سے زیادہ 135ارب روپے کی بولی لگاکر پی آئی اے کو خرید لیا۔ گوکہ نجکاری کے اس عمل سے حکومت کو کوئی خاص مالی فوائد حاصل نہیں ہوئے مگر حکومت کی ساکھ اور اعتماد میں یقیناً نمایاں اضافہ ہوا اور وزیراعظم شہباز شریف نے نجکاری کے عمل کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔

قومی ایئرلائن پی آئی اے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے مسلمان تاجروں مرزا احمد اصفہانی، آدم جی اور حاجی داؤد سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’معرض وجودمیں آنیوالے پاکستان کی اپنی ایئر لائن ہو۔‘‘ اس طرح 23؍اکتوبر 1946ء کو ’’اورینٹ ایئر ویز‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس نے تین DC-3مسافر طیارے خرید کر آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا اور پہلی پرواز جون 1947ء میں کلکتہ سے کراچی کے درمیان شروع ہوئی۔ 14اگست 1947ءکو جب پاکستان بنا تو مرزا احمد اصفہانی نے اِن طیاروں کو عملے سمیت کراچی شفٹ کردیا اور اس طرح یہ پاکستان کی پہلی نجی ایئر لائن بن گئی۔ 5اگست 1953ء کو اورینٹ ایئرویز اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اورینٹ ایئر ویز کو سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے اس کا نام ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز‘‘ (پی آئی اے) رکھ دیا گیا۔ یوں پاکستان کی قومی ایئر لائن کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کا سلوگن ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ تھا۔ حکومت نے پی آئی اے کو سرکاری تحویل میں لینے کے بعد مرزا احمد اصفہانی کو ادارے کا پہلا چیئرمین مقرر کیا جنہوں نے اسے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں چلایا۔ ایئر مارشل اصغر خان کے دور تک پی آئی اے اپنے عروج پر رہی اور اپنی کارکردگی، سروس اور معیار کی بنیاد پر کچھ ہی برسوں میں پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہونے لگا۔

پی آئی اے نے دنیا کے کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں کی تشکیل اور عملے کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا جن میں معروف ایمریٹس ایئر لائن بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ مراکو کی رائل مراکو ایئر لائن اور مالٹا ایئر بس کی تشکیل میں بھی پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا لیکن 1980ء کی دہائی میں پی آئی اے کی کارکردگی میں بتدریج کمی اور ادارے کا زوال شروع ہوگیا جسکی بنیادی وجوہات سیاسی بنیادوں پر ہونیوالی بھرتیاں، یونین سازی اور کرپشن تھیں۔ 2000ء تک پی آئی اے کی مالی حالت انتہائی کمزور ہوگئی اور ادارے کو چلانے کیلئے حکومت کو سبسڈیز اور قرضے دینے پڑے۔ 2013ء میں پی آئی اے کا سالانہ خسارہ 44 ارب روپے، 2021 ء میں 50ارب روپے اور 2022ء میں 88ارب روپے تک جاپہنچا، اس طرح گزشتہ چند برسوں میں قومی ایئر لائن کا مجموعی خسارہ 700 ارب روپے سے تجاوز کرگیا اور پی آئی اے کو چلانے کیلئے حکومت ہر سال 75ارب روپے جھونک رہی تھی۔ پی آئی اے کی تباہی میں عمران خان دور حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اہم کردار ادا کیا جنکے پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے میں متنازع بیان نے ادارے کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا اور کئی یورپی ممالک نے پاکستانی پائلٹس اور پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔

پوری دنیا میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار چلانا نہیں بلکہ ایک اچھا کاروباری ماحول فراہم کرنا ہے۔ اسی لئے ایئر انڈیا، TAP، ایئر پرتگال، یونان کی اولمپک ایئر اور جاپان ایئر سمیت کئی ممالک کی قومی ایئر لائن نجکاری کے فارمولے کے تحت نجی شعبے کے حوالے کی گئیں۔ اکتوبر 2021ء میں ٹاٹا گروپ نے 2.5ارب ڈالر کے عوض ایئر انڈیا کے 100فیصد شیئرز خریدے۔ اس وقت ایئر انڈیا کے پاس 130مسافر طیارے تھے۔ پی آئی اے کے پاس اس وقت 38مسافر طیارے ہیں لیکن ان میں سے بھی صرف 18آپریشنل ہیں۔ اگر اسے ہمارے طیاروں کی مناسبت سے دیکھا جائے تو فی طیارہ ہماری قیمت بھارت کے مقابلے میں زیادہ ہے جو ایک اچھی قیمت ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی اور تاریخی نجکاری قرار دی جارہی ہے تاہم کچھ ناقدین اس پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ حکومت نے ’’فیملی سلور‘‘ بیچ کر غلط فیصلہ کیا حالانکہ یہ فیملی اثاثہ ملکی معیشت پر بوجھ بن چکا تھا۔ دوسرا یہ کہ قومی ایئر لائن خریدنے والے پاکستانی ہیں اور پی آئی اے کے پرچم بردار طیاروں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی مگر وہ لوگ جو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے تھے، شاید انہیں ضرور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پی آئی اے کی نجکاری میں وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا۔ جنرل عاصم منیر نے اپنے دورہ کراچی میں بزنس مینوں سے درخواست کی کہ وہ ایک کنسورشیم بناکر پی آئی اے کی نجکاری میں اپنا کردار ادا کریں۔ عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب ایک پروفیشنل اور تجربہ کار بزنس مین ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی قیادت میں پی آئی اے ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرے گی اور نئی اڑان کی طرف گامزن ہوگی۔ قومی ایئر لائن کی نجکاری ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وہ ادارے جہاں ماضی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئی تھیں، آج تباہی سے دوچار ہیں جس میں اسٹیل ملز بھی شامل ہے۔اسلئے اسٹیل ملز سمیت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے تاکہ حکومتی خزانے کے ضیاع کو روکا جاسکے۔

تازہ ترین