سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے تازہ انکشاف کے مطابق اُن کے دور میں سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جنرل پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا معاہدہ ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں جنرل مشرف صدارت کے منصب سے مستعفی ہوکر ملک سے باہر گئے تھے۔جناب گیلانی کے بقول انہیں محفوظ راستہ دینے کے معاہدے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ جمعہ کو پیپلز پارٹی میڈیا سیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور تمام سیاسی قوتوں نے ابتداً پرویز مشرف کے مواخذے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ان کے مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں طے ہوا کہ اگر جنرل مشرف صدارت سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو انہیں باوقار اور محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ ملک کا ایک فوجی صدر اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر مستعفی نہیں ہوسکتاتھا،جب اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی قوتوں کو یہ حمایت فراہم کی تو انہوں نے ان سے بھی وعدے لئے ہوں گے کہ آپ آگے چل کر انہیں تنگ نہیں کریں گے۔تاہم جناب گیلانی کے مطابق اس معاملے میں موجودہ حکومت کا کردار درست نہیں رہا، ان کا کہنا تھا کہ وہ جنرل مشرف کے حق میں نہیں مگر یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کے حوالے سے جو یقین دہانی کرائی تھی، موجودہ حکومت کو اس کی پابندی کرنا چاہئے تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کے اس موقف پر مسلم لیگ (ن) کا ردعمل وفاقی اور صوبائی وزراء کے بیانات کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے پرویز مشرف کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سے کوئی معاہدہ کیا تھا تو مسلم لیگ (ن) اس کا حصہ نہیں تھی۔ان کے بقول پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے فیصلے کی ذمہ داری عدالت پر ہے اور عدالتیں آزاد ہیں۔جبکہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ عدالت کی ہدایت پر درج کرایا گیا تھا ، حکومت نے یہ اقدام اپنے طور پر نہیں کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں جنرل مشرف کو صدارت سے مستعفی ہونے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کے معاہدے کی جو بات کی ہے، وہ قرین قیاس ہے۔ اس کے بعد عملاً ہوا بھی یہی کہ جنرل مشرف کسی باز پرس اور عدالتی کارروائی کا سامنا کئے بغیر پورے اعزاز کے ساتھ مستعفی ہوئے اور ملک سے باہر چلے گئے۔ تاہم اس کے بعد ملک میں عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کا سفر تیزی سے آگے بڑھا حتیٰ کہ خود جناب گیلانی کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں معزول ہونا پڑا اور اور ان کے جانشین بننے والے پی پی کے دوسرے وزیراعظم کو بھی عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر طاقتور اداروں کے ذمہ داربھی عدالتوں میں جواب دہی کے لئے حاضر ہونے لگے ۔ ان حالات میں گزشتہ سال عام انتخابات سے پہلے جنرل مشرف نے اس اعلان کے ساتھ وطن واپسی کا فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خلاف ہر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں اور اپنی بے گناہی عدالتوں میں ثابت کریں گے۔ انہوں نے اپنے دور میں آئین کو دوبارہ معطل کرنے کا جو اقدام کیا تھا،اس کے خلاف عدالت پہلے ہی فیصلہ دے چکی تھی۔اس کے بعد جنرل مشرف کو اپنے اعلانات کے مطابق عدالت میں اپنی بریت ثابت کرنی چاہئے تھی۔ تاہم اب ایک تاثر یہ ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ریاست کے کلیدی اداروں کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ آئینی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لئے ملک کو اس خطرے سے بچانا ناگزیر ہے۔لہٰذا آئین کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جانا ضروری ہے جس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی کا تاثر ختم ہو اور ملک عدم استحکام سے محفوظ رہ سکے ۔ کسی نئے بحران سے ملک کو بچانے کے لئے ہماری سیاسی قیادت، آئینی ماہرین اور اسٹیبلشمنٹ سب کو یہ راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
یوم آزادی: احتیاط سے!!
وزیراعظم کی صدارت میں منعقد ہونےوالے ایک اجلاس میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ 14اگست یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں جلسے، جلوس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ فیصلہ بھی ہوا ہےکہ ملک میں ایک طویل مدت کے بعد دو ہفتے کا بھرپور جشن آزادی منایا جائے گا اور ڈی چوک میں یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی ہوگی اور وزیراعظم خطاب کریں گے۔ عسکری قیادت اور ممتاز شخصیات اس تقریب میں شریک ہوں گی۔ اس اجلاس میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی وزیر اطلاعات اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس میں کہا گیا کہ ہر جماعت کو احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے مگر سیاست کے نام پر فساد کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ دوسری طرف تحریک ِ انصاف نے اسی روز یعنی 14اگست کو اسلام آباد میں پارلیمینٹ ہائوس کے باہر ڈی چوک میں ’’آزادی مارچ‘‘ کے نام سے جلسہ کرنے کااعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت کی جانب سے جلسے جلوس پر پابندی کو مستردکردیاہے اور کہا ہے کہ پرامن لانگ مارچ ضرور ہوگا۔ اسے روکنا غیرقانونی ہوگا اور اس کے نتائج مرتب ہوںگے۔ یوم آزادی ایک اہم اور قومی دن ہے اور بلاشبہ قوم کو جشن آزادی جوش و خروش سے منانا چاہئے اور ایسا کیابھی جاتا ہے۔ ماضی میں اسی چوک میں یوم آزادی کی تقریبات منائی جاتی رہی ہیں لیکن اس وقت جو صورتحال ہے اس میں یوم آزادی انتہائی احتیاط سے منانے کی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہئے جس میں آپس میں ’’سیاسی ٹکرائو‘‘ کی صورت پیداہو۔ حکومت تحریک ِ انصاف ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یوم آزادی کے تقدس کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس حوالے سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں۔ تحریک ِ انصاف اوردوسری سیاسی جماعتوں کو احتجاج ، جلسے، جلوس کرنے کا آئینی و قانونی حق حاصل ہے۔ تاہم حکومت اور سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف کو آپس میں بات چیت کرکے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے جمہوریت کا مفاد اسی میں مضمر ہے کہ جبر، تشدد اور طاقت کے استعمال سے ہر فریق گریزکرے۔
جیو کو آزاد کریں
سندھ ہائی کورٹ نے جیو تیز اور جیو کہانی کی غیرقانونی بندش کے خلاف دو آئینی درخواستوں پر وفاقی سیکرٹری اطلاعات چیئرمین پیمرااور کیبل آپریٹرز کو 6اگست کے لئے نوٹس جاری کردیئے ہیں جبکہ عدالت آئندہ سماعت پر جیو نیوز کی غیرقانونی بندش کے خلاف 8آئینی درخواستوں کی سماعت بھی کرے گی۔جیو نیوز، جیو تیز اور جیو کہانی کی غیرقانونی بندش اور ان کو من مانے طریقے سے تبدیل کرکے آخری نمبروں پر ڈال دینے کا قصہ اگرچہ اب کئی مہینوں پر محیط ہو چکا ہے اور پیمرا سے اس حوالے سے جملہ امور طے پا جانے اور سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالتوں تک سے اس کے خلاف فیصلہ کردیئے جانے کے باوجود کیبل ٓآپریٹرز جس ہٹ دھرمی کے ساتھ ملک کے ان مقبول ترین چینلوں کو آف ایئر کرنے یا ان کے نمبروں کو آگے پیچھے کرکے عوام کو اپنے پسندیدہ چینلوں کو دیکھنے سے محروم کر رہے ہیں اس کا انہیں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں مگر اس کے باوجوداگر وہ ملکی عدالتوں کے احکامات تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور اپنے اس غیرقانونی طرز ِ عمل کے لئے کوئی نہ کوئی حیلہ یابہانہ تلاش کرنے کی روش پرگامزن ہیں تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جیو کے ان ہر دلعزیز چینلوں کے اعلیٰ معیار، تکنیک و فنی مہارت اور وسیع تر اثرات سے خائف حریف ہی وہ پس پردہ ہاتھ ہیں جو کیبل آپریٹروں کو جیو نیوز، جیو تیز اور جیو کہانی ایسے پسندیدہ ترین چینلوں کو عوام تک رسائی سے روکنے کی سازش کا تانا بانا بن رہے ہیں اور ان کا یہ اقدام نہ صرف آزادی ٔ اظہار کے آئینی تقاضوں کے منافی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے مسلمہ عالمی تصور کی بھی نفی کرتا ہے ۔بین الاقوامی سطح پر بھی اس امر کو برملا تسلیم کیا جارہاہے کہ یہ زیادتی صرف جیو تک محدود نہیں بلکہ عوام کے حقوق کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔اس لئے جیو کو اب بلاتاخیر آزاد کردینا چاہئے اور اس حوالے سےموثر عملی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوںسے کسی بھی طرح محروم کرنا درست نہیں۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001