• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار میں نے اذان کی آواز آنے سے پہلے گھڑی دیکھ کر افطار کر لیا،کئی لوگ سنجیدگی سے اس شبہ میں پڑ گئے کہ میرا روزہ نہیں ہوا ۔ آج کل روزہ داروں کا یہ حال ہے کہ وہ اس کا سخت اہتمام کریں گے کہ طلوع سحر سے کچھ منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دیں اور غروب آفتاب کے کچھ منٹ بعد افطار کریں۔ اس کا نام انہوں نے ’’احتیاط‘‘رکھا ہوا ہے۔ اس احتیاط کی زد میں عید کا چاند بھی آیا ہوا ہے۔
روزہ، جس کو عربی میں صوم ، انگریزی میں فاسٹنگ کہتے ہیں ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پایا جاتا ہے اگرچہ اس کی مدت اور اس کی شکل میں ایک مذہب اور دوسرے مذہب کے درمیان اختلاف ہے مگر وہ ایک یا دوسری صورت میں ہر جگہ موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ نفس کو کنٹرول میں لانے کی تربیت ہے اور نفس پر کنٹرول( یا نفس کشی) کو ہر مذہب میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذہب جس قسم کے انسان بنانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا نفس اس کی عقل کے قبضہ میں ہو اورروزہ آدمی کو اسی کے لئے تیار کرتا ہے۔آدمی دو چیزوں کا مجموعہ ہے جسم اور روح جسم مادی اور کثیف ہے، روح غیر مادی اور لطیف ،اگر ہم جسم کی ہر خواہش کو بے روک و ٹوک پورا کرتے رہیں تو جسم زور آور بن جائے گا اور وہ روح کے اوپر غالب آ جائے گا۔ روزہ اسی آزادی پر پابندی لگانے کا دوسرا نام ہے۔ روزہ آدمی کے جسم کو ایک حد کے اندر رہ کر اس قابل بناتا ہے کہ اس کے جسم کے اوپر حکمرانی کرے اس کا لطیف وجود اس کے کثیف وجود کو اپنے قبضہ میں رکھے۔ میرے حساب میں روزہ اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے یعنی ایسا نہیںہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا پینا بند رکھے تو بس اس کا روزہ ہو گیا۔ روزہ کی یہ ظاہر صورت ایک علامت ہے اور اس کے ذریعہ ایک خاص روحانی اور اخلاقی سبق دینا مقصود ہے۔ اور وہ سبق یہ ہے کہ دنیا میں آدمی کو چاہئے کہ وہ صحیح اور غلط اور جائز اور ناجائز میں فرق کرے۔ وہ صحیح اور جائز کو لے لے اور غلط اور ناجائز سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے وہ نجات کی راہ پا سکتا ہے۔ رمضان کے مہینہ کو حدیث میں صبر کا مہینہ (شہر البصر) کہا گیا ہے صبرو استقامت بلا شبہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے یہی تمام فتوحات اور کامیابیوں کا راز ہے۔ حقیقی روزہ صبر کی صفت پیدا کرتا ہے اور صبر ہی وہ چیز ہے جو تمام اعلیٰ کامیابیوں کا دروازہ ہے ۔روزہ کیلئے عربی لفظ صوم کے اصل معنی ہیں ۔رکنا ۔صائم کے معنی ہیں رکنے والا، زمانہ قدیم میں مشکل اوقات میں گھوڑا انسان کا سب سے بڑا ساتھی تھا،جنگ اوردشوار قسم کے سفرمیں وہ انسان کے کام آتا تھا ،اس مقصد کے لئے تربیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ گھوڑے کو محدود مدت کیلئے بھوکا پیاسا رکھا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سختی کو برداشت کر سکے۔اس طرح کے تربیت یافتہ گھوڑے کو خیل صائم( روزہ دار گھوڑا) کہتے تھے۔ اس طرح صائم سے مراد وہ انسان ہے جو کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے وقتی طور پر رک جائے۔ یہ رکنا اور پرہیز کرنا آدمی کے اندر برداشت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ جب سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں تو وہ ان کے مقابلہ میں پوری طرح جم سکے۔ رمضان کا مہینہ آدمی کیلئے اپنے نفس اور اپنی ،خواہشات سے لڑنے کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جب انسان برائی کی طاقتوں کو زیر کر کے ان کے اوپر قابو پاتا ہے اور دوبارہ خدا کے نیک بندہ کا عزم لیکر نئے سال میں داخل ہوتا ہے۔ تاریخ حیرت انگیز طور پر روزہ کی اس خصوصیت کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ روحانی مقابلہ کا یہ مہینہ اسلام کی تاریخ میں فوجی مقابلہ کا مہینہ بھی رہا ہے، اسلام اور غیر اسلام کے کئی بڑے بڑے معرکے اسی مہینہ میں پیش آئے۔ مثال کے طور پر ان میں سے چند معرکوں کا ذکر کرتا ہوں۔
1۔ جنگ بدر رمضان 2ھ،جبکہ رسول اور اصحاب رسول کو قریش کے اوپر فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔2۔فتح مکہ رمضان8ھ جس نے پورے عرب پر اسلام کو غالب کر دیا۔3۔ جنگ تبوک ۔رجب میں شروع ہو کر رمضان میں ختم ہوئی۔4۔ فلسطین رمضان15ھ عمرو بن العاص نے فلسطین کو فتح کر کے بیت المقدس کو اسلام کی حدود سلطنت میں شامل کیا ۔5۔ معرکہ اسپین ،رمضان 91ھ جبکہ طارق بن زیاد نے اسپین میں کامیاب پیش قدمی کی۔
6۔ سندھ رمضان96ھ ،محمد بن قاسم سندھ میں داخل ہوا اور وہاں اسلام کو پھیلایا ۔7۔ اندلس،رمضان 138ھ ،عبدالرحمن الداخل اندلس میں داخل ہوا وہاں باقاعدہ سلطنت امویہ قائم کی۔8۔ صیقلیہ رمضان 212ھ، زیاد بن الاغلب نے جزیرہ صقلیہ کو فتح کیا ۔9۔حروب صیلبیہ رمضان584ھ ،صلیبی جنگ میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی طاقتوں کو شکست دی۔10۔ معرکہ عین جالوت ،رمضان 658ھ ،جس نے تاتاریوں کو شکست دیکر مسلم دنیا میں ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔11۔ جنگ سوئز ۔ رمضان 1393ھ جب کے مصری فوجوں نے اسرائیلی فوجوں کو شکست دے کر نہر سوئز پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
اس قسم کے تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ روزہ اور جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ روزہ کی مشقت آدمی کو کمزور نہیں کرتی بلکہ وہ اس کو اس قابل بناتی ہے کہ زندگی کے معرکہ میں وہ زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ حصہ لے سکے۔
تازہ ترین