اسلام آباد(نمائندہ جنگ) وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایان علی اور ڈ اکٹر عاصم کیسز ختم کرنے کے بدلے صلح کی پیشکش کی ہے، عمران بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے دبئی کے محلات کا ضرور پوچھیں، ایان علی او ر بلاول کے ایئر ٹکٹ ایک اکائونٹ سے خریدے جاتے ہیں، ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے ، ماڈل کا آصف زرداری سے تعلق بتا یا جائے،غریبوں کی کھال اتارنے والے ایان کا کیس مفت میں لڑ رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر حکومت کیخلاف ہوتا ہے، ’وہ‘ میرے مخالف ہیں، میں نے کبھی پوچھا ایک میٹر ریڈر اس منصب پر کیسے پہنچا؟ جانتا ہوں گیس کوٹا کیسے ریگورلائز کرایا گیا، نیشنل ایکشن پلان کے 4؍ نکات سے میرا تعلق ہے جو پورے کیے گئے، باقی کے صوبے جوابدہ ہیں، اب تک ایک ماہ 10 دن میں 3 کروڑ 12 لاکھ شناختی کارڈز کی تصدیق ہو چکی ہے، پاکستان میں کرپشن کیخلاف کوئی سنجیدہ نہیں، بس مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار ہے، پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کیلئے دروازے کبھی بند نہیں کئے، بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ میری تقریر کا جواب یہا ں بھی دے سکتے تھے ،لیکن وہ یہاں سے چلے گئے،یہاں بیان دیتے تو بھرپور جواب دیا جاتا، مسئلہ کشمیر پر ان کاموقف کبھی درست نہیں مان سکتے ،کشمیر میں جاری دہشت گردی ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دو روز قبل قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کے بعد میری تقریر طے شدہ تھی۔ اسمبلی میں کوئٹہ دھماکوں پر بحث کا اختتام مجھے ہی کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ولن ہیرو نہ بنیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں اسمبلی کی بعض تقاریر پر کسی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تو میں نے کہاتھا کہ اس کا جواب فوج کی طرف سے نہیں آنا چاہیے۔ فوج حکومت کا حصہ ہے اور حکومت کو ہی جواب دینا چاہیے۔ اسی اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ اسمبلی کی متنازع تقریر کا جواب بھی میں ہی دوں گا اور پھر میں نے ہی جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ڈھنڈورچیوں نے آئے روز ایک ڈرامہ رچانے کا تہیہ کررکھا ہے اور ان کا ہدف میں ہوں۔ سرحد پار پاکستان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ میں کوئی ’’را‘‘ کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن کیخلاف کوئی سنجیدہ نہیں، بس مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔ قوم سے منافقت نہ کی جائے اور بتایا جائے کہ سرے محل کے 6 ملین ڈالرز کس کے اکاؤنٹ میں گئے؟ ڈائمنڈ نیکلس کس کا تھا؟ میں عمران خان کو کہوں گا کہ وہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے سرے محل کے بارے میں ضرور پوچھ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لیڈر آف اپوزیشن حکومت کیخلاف ہوتے ہیں، مگر وہ میرے خلاف ہیں۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میٹر ریڈر اس مقام تک کیسے پہنچا؟ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹٰی نے حکومت کا ساتھ دینے کیلئے ایان علی کا کیس واپس لینے اور ڈاکٹر عاصم حسین کو ضمانت پر رہا کرنے کی شرائط رکھی تھیں۔ کہا گیا کہ اگر ایسا ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی آپ سے صلح ہو جائے گی۔ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا کیس نیب کے پاس اور پراسیکیوٹر آپ کے دور کا لگا ہوا ہے جبکہ ماڈل ایان علی 5 کروڑ بیرون ملک لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کی کھال اتارنے والے ایان علی کا کیس مفت میں لڑ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور ایان علی کے ایئر ٹکٹس ایک ہی اکاؤنٹس سے خریدے جاتے ہیں۔ماڈل کا زرداری سے تعلق بتایا جائے۔ چوہدری نثار نے قوم سے منافقت نہ کی جائے اور بتایا جائے کہ سرے محل کے 6 ملین ڈالرز کس کے اکاؤنٹ میں گئے؟ ڈائمنڈ نیکلس کس کا تھا؟ ۔ وزیر اعظم کا پاناما لیکس میں نام بھی نہیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو تحقیقات کے لئے پیش کردیا ہے، عمران خان کرپشن کے خلاف نکلے ہیں اور وہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے ان سے پوچھ لیں کہ سرے محل اور سوئس بینکوں میں رکھا پیسہ کہاں سے آیا، کیا سرے محل کسی پری اور دیو کا ہے اور کبھی نہیں کہا میٹر ریڈر یہاں تک کیسے پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیڈر آف اپوزیشن حکومت کیخلاف ہوتے ہیں، مگر وہ میرے خلاف ہیں۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میٹر ریڈر اس مقام تک کیسے پہنچا؟ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹٰی نے حکومت کا ساتھ دینے کیلئے ایان علی کا کیس واپس لینے اور ڈاکٹر عاصم حسین کو ضمانت پر رہا کرنے کی شرائط رکھی تھیں۔ کہا گیا کہ اگر ایسا ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی آپ سے صلح ہو جائے گی۔ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا کیس نیب کے پاس اور پراسیکیوٹر آپ کے دور کا لگا ہوا ہے۔ جبکہ ماڈل ایان علی 5 کروڑ بیرون ملک لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کی کھال اتارنے والے ایان علی کا کیس مفت میں لڑ رہے ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سارک کانفرنس میں مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور میزبانی کے تمام تقاضے پورے کئے لیکن بھارت نے آداب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کیلئے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ بھارتی وزیر داخلہ کو جواب دینا چاہتا ہوں کہ قتل عام بھی آپ کرتے ہیں، دھمکیاں بھی آپ دیتے ہیں اور مذاکرات کے دروازے بھی آپ بند کرتے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ اپنے پاکستانی ہم منصب سے نہیں ملیں گے جسکے بعد مجھے بھی بیان جاری کرنا پڑا کہ اگر وہ ملنا نہیں چاہتے تو ہمیں بھی ملنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ نے یہاں سے جانے کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دیا۔ کاش وہ بہت کچھ جو راج ناتھ نے راجیہ سبھا میں کہا وہ یہاں کہہ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ راج ناتھ سنگھ نے راجیہ سبھا میں بیان دیا کہ پاکستان نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس سبق کی بات کر رہے ہیں؟۔ بھارت ہمیں کون سا سبق سکھانا چاہتا ہے؟۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں راج ناتھ سنگھ کو جواب دینا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم کسی کے تسلط میں نہیں رہ سکتی۔ پاکستان بھارتی تسلط اور کشمیریوں پر ظلم کا سبق کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ بھارت میں پاکستانیوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ غلام علی، شہریار خان، نجم سیٹھی اور راحت علی خان نے بھارت کا کیا قصور کیا تھا کہ ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا؟۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب رونمائی کروانے والے میزبان کا منہ کالا کر دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں راج ناتھ سنگھ کی آمد پر پرامن احتجاج ہوا، کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی اور کسی کا منہ کالا نہیں کیا گیا۔ چوہدری نثار نے بتایا کہ امریکی شہری میتھیو بیرٹ کو 2011 ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکی شہری پر جاسوسی کا الزام نہیں تھا لیکن وہ حساس سیکیورٹی والے علاقے میں پایا گیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر اسے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ امریکی شہری نے پانچ سال بعد دوبارہ پاکستانی ویزہ کیلئے اپلائی کیا لیکن بلیک لسٹ پر ہونے کے باوجود اسے 24 گھنٹے میں ویزا دے دیا گیا۔ جب امریکی شہری کو ویزا دینے پر جواب طلبی کی گئی تو متعلقہ افسر نے کہا کمپیوٹر میں خرابی تھی۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جس نے امریکی شہری کو چھوڑا وہ گرفتار ہے اور جس افسر نے غلطی پکڑی، اسے میری طرف سے تعریفی لیٹر اور 1 لاکھ روپے دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ایک ماہ 10 دن میں 3 کروڑ 12 لاکھ شناختی کارڈز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ لوگوں کی شکایت پر 5 لاکھ شناختی کارڈز بلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ 14 غیر ملکیوں نے خود فون کرکے اپنے شناختی کارڈز واپس کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کے آ خر میں جعلی شناختی کارڈز کے حامل افراد کیخلاف کارروائی ہوگی۔ عوام غیر قانونی شناختی کارڈز کی نشاندہی کریں، نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کبھی صوبوں پر تنقید نہیں کی۔ ایک طرف آپ سول آرمڈ فورسز کوبلاتے ہیں اور پھر اس پر قدغین بھی لگاتے ہیں۔ آپ انٹیلی جنس رپورٹوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور انہیں ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور الزام دیتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوتا،۔ مجھے ٹارگٹ کرنے کی تین وجوہات ہیں اور یہ ایک گٹھ جوڑ ہے۔یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں سکیورٹی فورسز کو تنقید سے بچائوں اسی لئے سکیورٹی فورسز کے حوالے سے میری ہر بات ان کے لئے ناگوار ہوتی ہے۔دوسرا معاملہ انڈیا سے متعلق ہے۔ انہیں انڈیا کے مفادات سے زیادہ ہمدردی ہے اور تیسرا معاملہ کرپشن کا ہے۔ میں گناہ گارہوں لیکن حرام کی طرف کبھی نہیں دیکھا، نہ سوچا۔ سوان کو اس پربھی تکلیف ہے۔ کرپشن میں جولوگ ملوث ہیں وہ مجھ پر تنقید کرتےہیں۔ شاہراہ دستور پرایک زیر تعمیر فائیو اسٹار ہوٹل میں بعض بڑے لوگوں نے فلیٹ لے رکھے ہیں اور کئی نے یہ مفت حاصل کرلئے۔ میرے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔ کہ یہ کون لوگ ہیں ، انہوں نے پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اوراعتزاز احسن کو چیلنج کیا کہ وہ میڈیا میں مذاکرہ کریں، ریٹائرڈ ججز کے کمیشن کا سامنا کریں یا سپریم کورٹ آجائیں تاکہ الزامات کی تحقیقات ہو اور عوام کے سامنے حقائق آسکیں اور قوم جان لے کہ کون کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ میں چھ مرتبہ وزیر اپوزیشن لیڈر رہ چکا ہوں، مجھ سے غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن میں ناکردہ گناہوں کا سزاوار نہیں ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ساری توجہ ایک محفوظ، بہتر اور ترقی یافتہ پاکستان پر مرکوز کریں جس کے لئے ہمارے عوام ، مسلح افواج، پولیس اور سول آرمڈ فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دیں۔ ہم اپوزیشن سے ہر قسم کی بات چیت کے لئے تیار ہیں ،سکیورٹی ایجنسیز کے حق میں بولنا میری ذمہ داری ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ رینجرز کی طرف سے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری درست اقدام نہیں تھا۔ اسی طرح جب رینجرز تحویل میں ایم کیو ایم کا ورکر مارا گیا تو ہم نے عدالتی انکوائری کے احکامات دئیے تھے۔بند کمرہ اجلاس میں کمزوریوں کی نشاندہی ہونی چاہیے لیکن دنیا کے سامنے سکیورٹی ایجنسیز کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے۔ ا ب میں نے فیصلہ کرلیاہے کہ الزام تراشی کرنے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائوں گا اور ہر روز پریس کانفرنس کروں گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی میں کوئی گروپ نہیں اور جو چند لوگ باتیں کرتے ہیں مجھے پتہ ہے جو قیادت کے کان بھرتا ہے وہ بھی میری نظر میں ہیں۔ دریں اثناءوزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان سے جاپان کے سفیر تاکاشی کورائی اور آسٹریلین ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے الگ الگ ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں ملکوں سے پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اور مختلف امور میں جاری باہمی تعاون پر بات چیت کی گئی دونوں سفیروں کی جانب سے سانحہ کوئٹہ کی بھرپور مذمت کی گئی اور قیمتی جانوں کے زیاں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔
.