• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن سے وطن واپسی پر پورے ملک کو خوش و خرم اور شادماں دیکھا۔ ہر طرف چودہ اگست کے یوم آزادی کے جشن کی تیاریاں یکم اگست سے ہی شروع ہوگئی تھیں۔ چاروں سمت گہماگہمی تھی۔ تمام ٹی وی چینل رنگ برنگے پروگراموں کے کلپ چلا رہے تھے جو انہوں نے چودہ اگست کیلئے تیار کئے ہوئے ہیں۔ بازاروں میں رونقیں تھیں، لوگ اپنے گھروں پر لگانے کیلئے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم جوق در جوق خرید رہے تھے۔ بچّے، گھر اور گلیاں سجانے کیلئے جھنڈیاں اور مختلف جھالریں خرید رہے تھے۔ یوم آزادی کیلئے سجاوٹ کا سامان بیچنے والی مخصوص گلی سے گزرنا محال تھا۔ ہاتھ گاڑیوں پر لدا ہوا نیا سامان دکانوں پر آ رہا تھا اور آتے ہی منتظر گاہکوں میں فروخت ہو جاتا تھا۔ ایسے میں پاکستان دشمنوں کو ہماری خوشیاں پسند نہیں آئیں۔ انہوں نے منصوبہ بندی کی اور 8؍اگست کی صبح بلوچستان بار ایسوسی ایشن ہائیکورٹ کے صدر جناب بلال کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ۔ اپنے صدر کی شہادت کی خبر سن کر تمام وکلا فوری طور پر سول اسپتال روانہ ہو گئے اور وکلا نے عدالتوں میں اپنے کیس چھوڑ دیئے۔ سب کے سب اپنے صدر کیلئے اسپتال پہنچ گئے۔ دشمن تاک میں تھا اور پہلے سے منصوبہ بندی کر چکا تھا۔ اس نے جوں ہی دیکھا کہ بڑی تعداد میں وکلا جمع ہو گئے ہیں، اس نے اسپتال کے گیٹ پر دھماکہ کر دیا جس میں 25وکلا، دو ٹی وی چینلوں کے صحافی، کیمرہ مینوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کل مرنے والوں کی تعداد ابھی تک 70ہو گئی ہے اور ابھی مزید 100افراد زخمی ہیں جن میں چند کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ انتہائی دکھ کا واقعہ ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں گرمی کی تعطیلات کے بعد پہلا ورکنگ دن تھا۔ اطلاع ملتے ہی تمام کام معطل کر دیا گیا اور دوسرے روز بھی ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا۔ ہماری بار کے نمائندے صدر خالد جاوید، یٰسین آزاد، بشیر قاضی اور فاروق نائیک سینئر وکلا جنازے میں شرکت اور تعزیت کیلئے کوئٹہ روانہ ہوئے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب انور ظہیر جمالی بھی غم زدہ خاندانوں سے تعزیت کیلئے کوئٹہ پہنچ گئے۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک ہی روز، ایک ہی جگہ پر اتنے وکلا نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ خدا قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کو غرق کرے اور شہید وکلا، صحافیوں اور بے گناہ معصوم شہریوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ چیف منسٹر بلوچستان کے حوالے سے خبر ہے کہ یہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی را کا کام ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی جدوجہد کی طرف سے دنیا کی توجّہ ہٹانے کیلئے اس طرح کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے اور اسے روکنے کیلئے بین الاقوامی سازش کے تحت ملک کی امن و امان کی صورتحال خراب کی جارہی ہے تاکہ چائنا اپنا روپیہ پاکستان میں نہ لگائے اور یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح فائلوں کی زینت بن جائے اور آئندہ پچاس سال تک اس پر تبصرے اور تجزیئے ہوتے رہیں۔ ماضی میں پاکستان میں ایسا ہوا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے جاتے جاتے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری دے دی تھی پھر وہ منصوبہ فائلوں میں بند ہو گیا۔ گیس قطر کی استعمال ہونے لگ گئی۔ ایران دیکھتا ہی رہ گیا۔ ہمارے پاس سندھ میں تھر کے علاقے میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر ہیں اور بہت سے لوگ جنہوں نے کبھی بجلی نہیں بنائی اور نہ ہی ان کو اس کا کوئی تجربہ ہے، انہوں نے اپنے سیاسی اثرورسوخ استعمال کر کے کوئلے کی کانیں الاٹ کروا لی ہیں، تقریباً تمام کانیں الاٹ ہو چکی ہیں مگر نہ کوئلہ بجلی میں استعمال ہو رہا ہے نہ بجلی بن رہی ہے۔ سابق صوبائی وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ کے زمانے میں ایٹمی سائنسدانوں کو کچھ فنڈ ریلیز بھی ہوئے تھے اور سستی بجلی بننے کی خبریں بھی آئی تھیں پھر وہ سیاستداں بجلی سمیت غائب ہو گئے اور بجلی کے ساتھ خود بھی لوڈ شیڈنگ کر گئے۔ بجٹ اور فنڈز کا کیا بنا، وہ تو صرف اللہ ہی کو پتہ ہو گا۔ کسی اخبار میں نہیں آیا۔ یہ تمام باتیں یاد دلانے کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے، صرف اپنا جائزہ لینا مقصود ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور صرف سبز جھنڈیاں خرید کر اور اسے اسکولوں میں لگا کر ہم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ ہمارے فرائض کچھ اور بھی ہیں۔ یہ ملک ہم سے جھنڈوں کے علاوہ بھی کچھ مانگتا ہے۔ اس ملک کا ہم پر حق ہے۔ اس ملک نے ہم کو سب کچھ دیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں پہچان دی ہے۔ ہمیں اپنا پاسپورٹ دیا ہے۔ آج ہمیں پوری دنیا میں سفر کرنے کی اجازت ہے۔ آپ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جن کی کوئی شہریت ہی نہیں، جن کا کوئی پاسپورٹ ہی نہیں بن سکتا اور وہ دنیا کے کسی خطے میں سفر ہی نہیں کر سکتے۔ خدا کے فضل سے ہمارے ملک کے ہزاروں بچّے غیر ممالک میں تعلیم مکمل کر کے وہیں پر ملازمتیں کر رہے ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ کچھ ملک دشمن عناصر جو کہ ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں، ان کی شکلیں اور لباس بھی ہمارے جیسا ہے اور ان کے ذرائع آمدنی کا بھی کچھ پتہ نہیں ہر وقت ملک کی سالمیت کے خلاف بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، مایوسی پھیلاتے ہیں، دشمنوں کے مذموم مقاصد کو اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ ہمارے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، میرا مشورہ عام شہریوں کو ہے کہ ان کا محاسبہ کریں، ان کے ذرائع آمدنی معلوم کریں اور ان کی نشاندہی کر کے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کریں۔ خدارا پاکستان کی مدد کریں۔ یہ بڑا پیارا ملک ہے۔ اس ملک نے ہم کو سب کچھ دیا ہے۔ آخر میں شکیل بدایونی کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
جو ہے رائیگاں تیری جستجو، یہ تیری نظر کی خطا نہیں
میں رہ گرد راہ مجاز ہوں، جسے خود بھی اپنا پتہ نہیں
یہ نہیں کہ باب حریم سے جو طلب کیا وہ ملا نہیں
مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اثر بقدر دعا نہیں


.
تازہ ترین