• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بات سے بہت ڈرتا ہوں۔ ہم کہیں بےرحم نہ ہوجائیں۔ہم ایک دوسرے سے تنگ نہ آجائیں۔یہ جو ہر ہاتھ میں ایک گشتی ٹیلی فون آگیا ہے اور یہ جو ہر ٹیلی فون میں مچھلی کی آنکھ جیسا ایک محدّب شیشہ لگا ہے یہ مجھ پر اور آپ پر ہی نہیں، پوری نسل ِانسانی پر کیا غضب ڈھائے گا اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔یوں لگتا ہے جیسے ساری دنیا برہنہ ہوگئی ہے۔ اب کوئی منظر،کوئی سانحہ، کوئی واقعہ اور سب سے بڑھ کر کوئی ظلم ہم سے چھپا نہیں رہا۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں اور سر تن سے جدا کر رہے ہیں، سارا منظر نہ صرف محفوظ ہے بلکہ کمپیوٹر کے پردے پر اتر آیا ہے،گولے پھٹ رہے ہیں اور انسان کے پرخچے اُڑ رہے ہیں، یہ واقعہ صرف قلم سے نہیں لکھا جار ہا ہے بلکہ فلم بنا کر دکھایا جارہا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا ہے، کبھی کہیں غور کیا گیا ہے، علوم عمرانی کے ماہروں نے کبھی اس موضوع پر مباحثہ کیا ہے کہ فکر انسانی پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔؟ کیا انسان ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے گا، ہم اپنے دور سے متنفّر ہو جائیں گے، مایوسی ہم پر غلبہ کر لے گی۔ ہم آنے والے وقتوں سے ڈرنے لگیں گے اورآخری بات، ہر روز بد سے بدتر ہوتے ہوئے حالات دیکھتے ہوئے کیا ہم اپنے بچّوں پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ سوچ کر ہمارے دل نہیںڈوبنے لگیں گے کہ یہ جب بڑے ہوں گے تو کیا ہوگا۔ایک بات تو طے ہے۔ ہمارے بھولے حاکم لوگ کتنی ہی پابندیاں لگائیں، نئے زمانے کی ان مصیبتوں سے نجات پانا ناممکن ہے۔ جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں، ہمیں ان کے ساتھ جینا پڑے گا۔ کسی افسراعلیٰ نے یو ٹیوب پر پابندی لگا کر دیر تک اپنی بغلیں بجائی ہوں گی کہ اس نے دین کی توہین کرنے والے کمپیوٹر کا قلع قمع کردیا۔ اس کی خدمت میں عرض ہے کہ پچھلے دنوں فیس بُک پر میں نے ایک نہایت برگزیدہ شخصیت کی اتنی ہی برگزیدہ خاتون کے ساتھ شادی کی کارٹون نما فلم دیکھی۔ دل سے اس افسرِ اعلیٰ کیلئے جتنے الفاظ نکلے سارے کے سارے غیر پارلیمانی تھے اس لئے عرض نہیں کر رہا ہوں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہر زمانے میں اس طرح کے قصے ہوتے رہے ہیں، لوگوں نے ان سے نمٹنے کے طریقے نکال لئے، کہیں پیار محبت سے اور کہیں دوسرے ڈھنگ سے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
میں پھر اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ یہ جو بے رحمی کے جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے منظر گھر کے کمپیوٹر پر آنے لگے ہیں ،ان کے دیکھنے سے ہمارے ذہنوں پر کیا اثرات پڑیں گے اورکیا ہمارے چارہ گر بتائیں گے کہ کچھ علاج ان کا بھی ہے کہ نہیں۔ کیا وہی تو نہیں جو علاج جمہوریت میں کمی آجانے کا بتایا جاتا ہے کہ اس نظام میں اور زیادہ جمہوریت ڈالو۔ ہم ظلم و تشدد کے یہ منظر دیکھتے دیکھتے ان کے اتنے عادی ہو جائیں گے کہ ہم پر ان کا اثر ہونا ہی بند ہو جائے گا۔یہ تو ہوا ایک حل۔ دوسری صورت بہت تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ یہ سب دیکھتے دیکھتے ہم بھی بے رحم ہوجائیں گے اور جیسے کبھی لڑائی جھگڑے میں گالیاں چلا کرتی تھیں اب گولیاں چلا کریں گی اور وہ بھی بے دریغ۔ شہر شہر پسند کی شادی کر کے اپنے سر سہرے باندھنے والوں کے سر اتارے جائیں گے اور ساس جو کبھی بہو پر سلیپر لے کر دوڑا کرتی تھی اب ری پیٹر repeater لے کر دوڑے گی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ انسانی رشتوں کی قدرو قیمت گھٹتی جاتی ہے اور ہمیں پروا نہیں۔ہم ایک دوسرے کے لئے کتنے اہم ہیں اس کا احساس ایک کو ہے تو دوسرے کونہیں۔ ہم دور ہوتے جارہے ہیںاو ر بے خبری کے عالم میں جی رہے ہیں۔ اور اب تو ایسی مثالیں بھی سامنے آنے لگی ہیں کہ بچّے اپنے بڑوں کو اولڈ پیپلز ہوم میں جمع کر آئے ہیں اور اس کے بعد انہیں بھول بھال گئے ہیں۔ یہ بھی ہوا ہے کہ بوڑھے باپ کی چارپائی یا کھاٹ کسی کونے کھدرے میں ڈال دی گئی اور اس جھلنگی کھاٹ پر بزرگوار کو ڈھیر کردیا گیا۔ گھر میں کچھ مہمان آئے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ خاندان کے بہت پرانے اور وفا دار ملازم ہیں ، ہم نے انہیں اپنے ہاں رکھ لیا ہے۔
یہ سب بدلتے ہوئے وقت کا تحفہ ہے،مغرب میں تو صنعتی انقلا ب کے ساتھ خاندان کے تانے بانے تباہ ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں تو جو دو چار انقلاب آئے وہ سبھی کچھ تھے، صنعتی ہرگز نہیں تھے۔ملک کا نظام بدلا نہ تقدیر بدلی۔ تعلیم خراب ہوئی، صحت عامہ مٹ گئی، نظم و ضبط غارت ہوا اور جان و مال پر لٹیرے ہاتھ صاف کرنے لگے تاریخ میں پیچھے جائیں تو ایک بادشاہ نظر آتا ہے جو کسی عجوبے سے کم نہ تھا۔ اس کا نام تھا شیر شاہ جو کہنے کو پٹھان تھا لیکن ولادت کے حساب سے ہندوستانی تھا۔ اس کی حکمرانی کے پانچ برس پورے ہونے کو تھے کہ اس وبا کا شکار ہوگیا جس نے آج بھی ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے، ہوا یہ کہ بارود کے ڈھیر میں ایک چنگاری جا گری، دھماکہ ہوا اور شیر شاہ مر گیا۔ اسے بھی سڑکیں اور پُل بنوانے کا شوق تھا لیکن اس نے چور اچکوں کے وجود پر جھاڑو پھیری اورتاریخ کی پیشانی پر ایک ایسا فقرہ لکھا گیا جو آج تک نہیں مٹا اور وہ یہ کہ شیرشاہ کے عہد میں عورت اپنا سونا چاندی اچھالتی چلی جاتی تھی اور کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ایک ہمارے حکمراں تھے جنہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس ملک میں اب یا تو ہم رہیں یا ڈاکو رہیں گے۔ پھر کیا ہوا۔خیر سے دونوں ہی رہ رہے ہیں اور عورت اپنا موبائل فون چھپائے جارہی ہے اور لوگ اس کو اور اس سے زیادہ اس کی حرمت کو تاڑ رہے ہیں۔ میں موضوع سے دور چلا گیا۔ کہنے کی بات یہ تھی کہ نئی او رپرانی نسل کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو جیسے بھی بنے پاٹا جائے۔ انسانی رشتہ ہماری زندگیوں میں کتنی اہمیت رکھتا ہے اس کے شعور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کا عجب نظارہ مغربی دنیا میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ جب سے ان کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے، لڑکے لڑکیوں میں گھر چھوڑنے کا رجحان نمایاں طور پر کم ہوتا جا رہا ہے۔نئی اور پرانی نسل قریب آنے لگی ہے، بزرگوں کا احترام ہونے لگا ہے اور ان کے لئے تشکر کا اظہار نظر آنے لگا ہے۔ہماری حالت تو اوّل دن سے دگر گوں ہے، پھر نوجوانوں کے سر میں کیسا سودا سمایا ہے کہ بڑے بوڑھوں سے کل کی بجائے آج اور ابھی کنارہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم نے ایک دوسرے سے تنگ آنا شروع کر دیا ہے ؟
تازہ ترین