• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عاصم اور ایان علی پر ڈیل کی پیشکش اب چوہدری نثار ثبوت پیش کریں

کراچی (تجزیہ /مظہر عباس) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا ریکارڈ پر ہےبلکہ انہوں نے تو اس شخص کاتذکرہ تک کردیا جس نے حکومت کو ماڈل ایان علی اور عاصم حسین (اسکول کے دورسے آصف علی زرداری کے دوست) کو ریلیف دینے کی صورت میں ڈیل کی پیشکش کی ہے۔ اب یہ بھی انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثبوت سامنے لائیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے تو یہ الزام مسترد کر دیا ہے۔ اس معاملے نے پہلے ہی تنازع کھڑا کر رکھا تھا اورواضح وجوہات کی بنیاد پر عمران خان کی تحریک احتساب نے اسے مزید تقویت دی۔ پیپلزپارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں اور وہ اب سخت گیر پی پی رہنما کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں۔ ان کا نام بھی ایل این جی کوٹے کے ساتھ لیاجاتا رہا ہے ۔اس مرتبہ انہوں نے بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کا عندیہ دے رکھا ہے لیکن انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ آیا یہ تحریک مشترکہ ہوگی یا علیحدہ علیحدہ چلائی جائے گی۔یہ تنازع جلد نمٹنے کانہیں اور میڈیا اب اس شخص کی تلاش میں ہے جس نے ممکنہ طور پر چوہدری نثار علی خان سے رابطہ کیا ہے۔ اگریہ سچ ہے تو یقیناً وہ طاقتور شخص بھی ہوگا اور اس کے رابطے اور دوستی سیاستدانوں سے ہوگی۔ اگر وزیر چند حقائق سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے جن میں (ا) اس شخص کے متعلق جو ڈیل کی آفر لےکر آیا تھا(ب) اس اکائونٹ کی تفصیلات جس سے ایان علی اور پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے ٹکٹ کےلیے رقم جاری ہوتی ہے (ج) یہ کہ پیپلزپارٹی کے وکلا نے ایان علی کو مفت قانونی معاونت فراہم کی شامل ہیں تو پھریہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ وزیر اعظم نواز شریف اس معاملے پر کیا موقف اپنا تے ہیںکیونکہ چوہدری نثار نے تو پی پی کے رہنمائوں پر زبان سےحملے کر دیئے ہیں اور یہ حملے کوئٹہ بم دھماکے سے پہلے اور بعد میں کیے گئے۔ اگر تو چوہدری نثار علی خان ان تین معاملات پر ثبوت سامنے لے آتے ہیں جن میں ایل این جی، کوٹا اور چوہدری اعتزاز احسن کا کردار شامل ہے تو اس سے پیپلزپارٹی نہ صرف مشکل صورتحال بلکہ شرمندگی سے بھی دوچار ہوسکتی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے پتہ چلے گا کہ آیا پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کے خلاف اور آگے بڑھیں گی یا کشیدگی ے خاتمے کی جانب بڑھیں گی۔اگر شواہد اور حقائق پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جائیں یا بالفرض عدالت میں قانونی جنگ لڑی جائے تو دیگر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص عمران خان کی تحریک انصاف کےلیے بلاول بھٹو کو ایک ہی کنٹینر پر آنے کی دعوت دینا آسان نہ ہوگاکیونکہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی پہلے ہی تحریک احتساب کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔  وہ لوگ جو چوہدری نثار کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ثبوت حاصل کیے بغیر اس قسم کے بیان دینے والوں میں سےنہیں ہیںاوراب خورشید شاہ کے خلاف ان کے کھیلنے کی باری ہے کیونکہ خورشید شاہ نے انہیں چیلنج کیاہے کہ وہ اس شخص کانام لیں جس نے انہیں یہ آفرد ی ہے۔لیکن اگر وزیر داخلہ کو وزیر اعظم نوازشریف نے زیادہ دور جانے سے منع کر دیاتوپھر کیا ہوگا؟پھر اس امر کا انحصار پیپلزپرٹی پر ہوگاکہ وہ اس تنازع کو میڈیا کی موجودگی میں کہاں تک طول دیتی ہے۔ آج تک کی صورتحال میں وزیر اعظم جنہوں نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کرنے والی اپوزیشن کو مناکر خود واپس لانے کے حوالے سے تاریخ مرتب کی وہ یقیناً اب چاہیں گے کہ صورتحال کی شدت میں کمی آئے  تاہم اگر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے قومی اسمبلی میں اپنے سوال اٹھانے کا فیصلہ کیا تو پھر وزیر اعظم نوازشریف کےلیے بھی چوہدری نثار کو روکنا بہت مشکل ہوجائےگا۔اب اہم سوال یہ ہے کہ وہ شخص بھلا کون ہوسکتا ہے جس نے مبینہ طور پر وزیر سے رابطہ کیا ہے اور جس میں اتنی دانش موجود تھی کہ وہ اس قسم کی پیشکش کر سکتا تھا یہ جانے بغیر کہ اس کا ممکنہ ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس کے حوالے سے کیس پر چوہدری نثارکا موقف پہلے سے معلوم ہے لیکن ایان علی کا زرداری سے تعلق پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔اس شخص کی شناخت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کون ہےآیا وہ کوئی سیاستدان ہے یا کوئی غیر سیاسی شخصیت ؟ کیو وہ اپنے تئیں چوہدری نثار کے پا ایا کہ وہ مصالحت کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے یا اسے بھیجا گیا؟ یہ پیشکش کتنی سنجیدہ تھی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر سنگین الزامات لگادیئے ہیں لیکن وہ لوگ جو چوہدری نثار کو جانتے ہیں وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وہ مشکل سے ہی کبھی اس نوعیت کے سنگین الزامات لگا سکتے ہیں۔اسی طرح چوہدری نثار علی خان اکثر کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی مین رضاربانی، قمرالزاماں کائرہ اور فرحت اللہ بابر جیسے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سیاسی لوگ ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو کبھی کسی کی ذاتیات پر حملے نہیں کرتے۔ڈاکتر عاصم حسین کے کیس پر چوہدری نثار کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ جس دن سے گرفتار ہوئے ہیں اس دن سے ان کا ذہن بالکل صاف ہے کہ وہ نہ صرف اربوں روپے کی بد عنو ا نیوں میںملوچ ہیں بلکہ وہ مبینہ دہشت دروں کےلیے سہولت کار بھی رہے ہیںیہ وہ الزام ہے جس کی ڈاکٹر عاصم تردید کرتے ہیں۔ بعد میں جے آئی ٹی ہوئی اور اب وہ دونوں مقدمات کا سامنا نیب اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کررہے ہیں۔وزیر اگرچہ اس انداز سے خوش نہیں تھے جس انداز میں عاصم کو گرفتار کیا گیا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے تو اپنے اس معاون کی گرفتاری کی مذمت بھی کر دی تاہم چوہدری نثار کو یقین ہے کہ ان کی وزارت کا ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور نیب میں ان کی حراست سے کوئی کوئی تعلق سےنہیں ہے۔ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم نوازشریف پر براہ راست حملہ بھی کرکے ان پر الزام عائد کرچکے ہیں۔ اس سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین محبت و نفرت کا رشتہ عملاً اپنے خاتمےکو پہنچ گیا۔ڈاکٹر عاصم کی جے ٹی آئی اور ان کے مبینہ ویڈیو اعترافی بیان کے نتیجے میں وہ صورتحال پیدا ہوئی جس میں چوہدری نثار کو میڈیا سے گفتگو کرکے انکشا فا ت کرنا پڑے۔ چنانچہ جب انہوں نے ڈاکٹر عاصم کے کیس اور ڈیل کی پیشکش کے حوالے سے بات کی تو اس سے کوئی سنسنسی خیز ی پیدا نہیں ہوئی لیکن ایان علی کے بارے میں انکشاف نے میڈیا میں اچھی خاصی دلچسپی پیدا کی ہے۔جب ایان کو پہلی مرتبہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گرفتارکیا گیا تو وہ مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے کی رقم لے جارہی تھیں اس وقت ان کے بارے میں مختلف قسم کی کہانیاں زبان زد عام ہوئیں۔ جب وہ گرفتا ر ہوئیں تو اس وقت منظر عام پر آنے والی خبروں میں بھی پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ان کے مبینہ تعلقات کے بارے میں قیاس آرائیاں سامنے آرہی تھیں لیکن پارٹی نے ان سے اپنا فاصلہ برقرار رکھا اور پھر یوں ہوا کہ سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کے معروف وکیل لطیف کھوسہ نے ایان کا کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ان کا بیٹا اور پھر وہ خود یہ کیس لڑتے رہے۔ ایان نے ای سی ایل سے اپنا نام نکلوانے کےلیے ایک بہت بڑی قانونی جنگ لڑی لیکن وہ ناکام ہوگئیں۔اب پہلی مرتبہ وفاقی وزیر داخلہ اس قسم کے سخت بیانات کے ساتھ سامنے آئے ہیں جن سے ایان کا پیپلزپارٹی کی دبئی قیادت سےممکنہ تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اس معاملے کے انکشاف میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ بلاول بھٹو اور ایان کے ٹکٹ کےلیے رقم ایک ہی اکائونٹ سے جاری ہوتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان جیسا شخص بغیر کسی ثبوت کے اس قسم کی سنسنی خیزی پیدا نہیں کر سکتا تھا۔شاید وہ اس حد تک نہ جاتے لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے ہونے والے بیانات کے حملوں کے بعد بالخصوص چوہدری اعتزاز اور خورشید شاہ کے بیانات کے بعد انہوں نے اس حد تک جانے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ یہ معاملہ عوام کے سامنے لائے۔لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے دوٹوک تردید کے بعد گیند ایک مرتبہ پھر وزیر داخلہ کے کورٹ میں آگئی ہے۔ چوچیز سب سے زیادہ دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ ان چند مبینہ روابط کے متعلق ہے جن کا تذکرہ چوہدری اعتزاز کے تبصرے میں آیا ہے انہوں نے کہا کہ ایک ہی اکائونٹ سے ٹکٹ کےلیے پیسے جاری ہونا اتفاق ہوسکتا ہے۔ صرف چوہدری اعتزاز ہی جانتے ہیں ہوں گے کہ بھلا بلاول اور ایان کے ٹکٹ کےلیے ایک ہی اکائونٹ سے پیسے جاری ہونا اتفاق کیسے ہوسکتا ہے اور پھر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اکائونٹ ہے کس کا؟تو آئندہ چند دنوں میں ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کےمابین تلخی میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد پی ٹی آئی اور ن لیگ کی کشیدگی بڑھے گی۔ پیپلزپارٹی کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عمران کی تحریک میں شرکت کرے گی یا نہیں کیونکہ اسے اس کے ممکنہ نتائج اور مضمرات کے بارے میں ابھی یقین نہیں ہے۔ ایان علی کا کیس اب میڈیا اور سیاسی پنڈت مزید قریب سے دیکھیں گے ،اس سے پہلے یہ کیس صرف کیمرے کی آنکھ سے دیکھاجرہا تھا۔ جہاں تک ڈاکٹر عاصم کا تعق ہے تو یہ اب بھی ایک طویل جنگ ہےاور اس کے حوالے سے تشویش صرف ڈاکٹر عاصم کےاہل خانہ اور دوستوں کو ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر مبصرین نے اس کا تعلق زرداری کی پاکستان واپسی سے بھی جوڑا ہے۔ پیپلزپارٹی کےلیے معمہ یہ ہے کہ نہ تو ایان علی پیپلزپارٹی کی رکن ہے اور نہ ہی ڈاکٹر عاصم پیپلزپارٹی کے رہنما ہیں یہ اور بات ہے کہ ا کے باوجود وہ وزیربھی رہے اور مشیر بھی رہے اور اس کی وجہ اسکول کی دوستی ہے۔(مصنف سینئر کالمسٹ اور جیو، جنگ و دی نیوز کا تجزیہ کارہے)
تازہ ترین