• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی جب کبھی ایمرجنسی میں جانا اور شام کو واپس آنا پڑے توپھر میں گاڑی اسلام آبادائیر پورٹ کی پارکنگ میں ہی چھوڑ جاتا ہوں، اسی طرح ہنگامی طور سے کراچی کے لئے نکلا تواسلام آباد ائیرپورٹ ڈیوٹی پر موجود حفاظتی عملے کے ایک رکن نے گاڑی کی ڈگی کھولنے کو کہا ڈگی کھولی تواس نے ایک تار جس کا دوسرا سرا اس نے ہاتھ میں لئے ہوئے موبائل نما ایک آلے میں لگایا ہوا تھا ، ڈگی میں رکھے بریف کیس پر وہ تار پھینک کر میری طرف دیکھا، دوبارہ اس نے موبائل نما آلے پر دوتین بٹنPushکئے پھر میری طرف دیکھ کر کہا کہ ٹھیک ہے جائیں، میں نے پوچھا کیا ٹھیک ہے ! وہ بولاآپ کے پاس کچھ بھی نہیں،کیا چیک کررہے ہو؟ اسلحہ !! لیکن اس بریف کیس میں تو ریوالور ہے! وہ بولا یہ ممکن ہی نہیں کہ ہماری مشین اسلحہ نہ پکڑے! میںنے بریف کیس کھولا،تو وہ ریوالور دیکھ کر بولا ، دراصل ہم بارود پکڑ رہے ہیں۔ میں نے ریوالور میں بھری ہوئی گولیاں دکھائیں تواس نے اپنا تفتیشی اور جاسوسی آلہ جیب میں رکھ کر دونوں ہاتھ مجھ سے ملاتے ہوئے کہا کہ ، سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا آلہ خراب ہے! ہم ڈگی میں تار کا اگلا سرا ڈال کر گاڑی والے کے چہرے کی طرف دیکھتے ہیں اگر اس کے چہرے کا رنگ بدل جائے توہم پکڑ لیتے ہیں۔ اگر ہماری طرح کا کوئی ’’ پکا بندہ‘‘ ہو جو اپنا رنگ نہیں بدلتا تو پھر کیا کرتے ہو؟ تب تک وہ کافی فرینک ہوچکا تھا میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارکر کہنے لگا ’’ ہن چھڈو وی‘‘ وہ چونکہ ڈیوٹی پر توتھا اسی لئے جب میں وہاں سے چلا تواس نے تاکیداً کہا کہ ریوالورDECLAREکرادینا ’’ ہم اس کی اس احساس ذمہ داری پر ہنسے تواس کا بھی ہاسا نکل گیا تھا۔ یہ روداد اسلام آباد ائیر پورٹ کی تھی جبکہ اندرون اسلام آباد ضلع کچہری میں3مارچ2014ء کو پیش آنے والے واقعہ سے بھی سیکورٹی کا اندازہ ہوجاتا ہے جب چند کلاشنکوف والے نے جج وکلاء اور کئی شہریوں کوموت کی نیند سلا کر لینڈ کروزرگاڑیوں پر دندناتے ہوئے پلٹ گئے تھے، ویسے تو اسلام آباد اگلے چند روز تک ریلیوں ، لانگ ’’ مارچوں‘‘ دھرنوں اور ون پوائنٹ ایجنڈے کی لپیٹ میں آنے والا ہے جن میں10اگست کوجماعت اسلامی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ’’ لبیک یا قبلہ اول‘‘ ریلی نکال رہی ہے اور عمران خان14اگست کو لانگ مارچ کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہیں11اگست کو ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب مارچ کے لئے اسلام آباد کی طرف نکلنا تھا ان کا خیال تھا کہ وہ جب دریائے چناب کے پل کے قریب پہنچیں توانقلاب آچکا ہوگا بالکل ویسے ہی جیسے وکلاء تحریک کی حمایت میں لاہور سے میاں نواز شریف اسلام آباد کے لئے جلوس کی شکل میں نکلے تھے تو جج بحال ہوگئے تھے مگر کسی سیانے نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے کہا ہے کہ ’’ ککھ نیئں ہونا ‘‘ بلاوجہ مخلص مریدوں کو بار بار آزمائش میں نہ ڈالو بس 10 اگست کولاہور میں ماڈل ٹاؤن کے مرنے والوں کی یاد میں لاہور ہی میں یوم شہداء مناؤ اور اللہ اللہ خیر سلا اور پھر عمران خان کب14جنوری2013ء کے اسلام آباد کے دھرنے میں شریک ہوا منہاج القرآن کے مخلص کارکن بلیو ایریا اسلام آباد کی یخ بستہ سڑک پر بیٹھے بار بار عمران خان کویاد کرتے رہے مگر وہ نہ آئے، پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ چوروں کی دوستی مال غنیمت کی تقسیم پر ٹوٹتی ہے اور اس کے برعکس ہمارا خیال ہے کہ سیاستدانوں کا اتحاد قیادت کے حصول پر ٹوٹتا ہے موجودہ متوقع ریلیوں دھرنوں اور ’’ مارچوں‘‘ میں شامل کوئی قائد کی قیادت میں چلنے کوتیار نہیں حالانکہ یہ سارے کے سارے ’’ ون پوائنٹ ایجنڈے‘‘ پر متفق ہیں اور وہ ایجنڈا وہ نہیں جوسنائی دیتا ہے یا دکھتا ہے۔ یہ سارا رونق میلہ اس میلے کی طرح کا ہے جس میں ایک دیہاتی کی جیب کٹ گئی تھی کسی نے اس سے جب پوچھا کہ میلہ کیسا تھا تودیہاتی نے کہا تھا کہ میلہ ویلا نہیں تھا سارا چکر اسکی جیب کاٹنے کے لئے چلایاگیا تھا، سویہ ریلیاں یہ دھرنے یہ مارچ ان سب کا محور وہ شخص ہے جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں جسے ایک معاہدے کے تحت باہر بھجوانے کی کاوشیں آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں کوئی اہل نظر اگر ان دھرنا قائدین کے سینے پر کان لگائے توایک ہی آواز سنائی دے گی کہ سجناں اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے ۔جہاں تک حکومت گرانے کا تعلق ہے تو موجودہ احتجاجیوں میں سے کسی میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ جمہوریت کونقصان پہنچا سکے اس حوالے سے پیپلزپارٹی کا خوبصورت تبصرہ آن ریکارڈ ہے کہ حکومت جب گری اپنی حماقتوں سے گرے گی لیکن ہمارا خیال ہے کہ اسلام آباد کی حکومت جب بھی گری اسلام آباد کے بارہ لاکھ لوگوں کے سڑکوں پر نکلنے سے گرے گی اسلام آباد کاسب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے پانی وافر مقدار میں موجود ہے ؟؟ ڈیم اور خان پورڈیم کا پانی بھی اسلام آباد میں آرہا ہے مگرCDAانتظامیہ گھروں میں پانی نہیں کھولتی پانی کے بل بھجوادیتی ہے ٹینکروں کے ذریعے شہریوں کو پانی فروخت کیاجاتا ہے جس کے حصول کے لئے صبح اذان کے ساتھ ہی مختلف علاقوں اور سیکڑوں میں قطاریں لگنا شروع ہوجاتی ہیں ان لمبی لمبی قطاروں نے جس روز ایوان وزیر اعظم کارخ کرلیا اس دن لگ پتہ جائیگا کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کو آئین کے آرٹیکل245کے تحت فوج کے حوالے کردیا گیا ہے اس بات میں بھی پوری صداقت نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو میرے گھر کے باہر ٹینک کھڑا ہوتا، آئی الیون سبزی منڈی کے علاقے میں تو پیں فٹ کردی گئی ہوتیں اسلام آباد کوفوج کے حوالے نہیں کیاگیا بلکہ وفاقی وزراء کوفوج کے حوالے کیاگیا ہے فوج کاسارا گشت منسٹر کالونی کے علاقے اور ریڈ زون میں ہے، اسلام آباد کے آئی سیریل کے سیکٹر ایٹ، نائن ، ٹین اور الیون سخت عذاب میں مبتلا ہیں کیونکہ گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد پولیس نے ان تمام سیکٹرز کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر قدآدم سیمنٹ کے بلاک رکھ کر سڑکیں بند کردی تھیں آئی ٹین کاتو بہت ہی برا حال ہے رمضان کے ایک جمعہ کوشہریوں نے سبزی منڈی آئی الیون تھانے کے ایس ایچ او کو مسجد ابوالقاسم میں بلوا کراپنی مشکلات سے آگاہ کیا مگر وہ کوئی جواب نہ دے سکاتو لوگ مشتعل ہوگئے یوں پھر SHOجان بچاکر نکل گیا اب حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے سیکٹر سے باہر نکلنے کے لئے سیکٹر کے اندر ہی اندر آدھ پون گھنٹہ گھومنے کے بعد باہر نکلنے کا راستہ ملتا ہے ۔
تازہ ترین