پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ ہفتے جو بیان جاری کیا تھا، اس کا مفہوم آج زیادہ واضح ہو گیا ہے کیونکہ ملک محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ محاذ آرائی ملک کے لئے بہت خطرناک ہو سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد نے پاکستانی عوام ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور وفاقی و صوبائی حکمرانوں سے درد مندانہ اپیل کی تھی کہ خدارا پاکستان کو بچایا جائے ، چھوٹے بڑے اختلافات کو دور کرنے کے لئے نتیجہ خیز بات چیت کے ذرائع استعمال کئے جائیں اور ہر قسم کی محاذ آرائی سے اجتناب کیا جائے ، جس سے جانی و مالی نقصان کا احتمال ہو الطاف حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ لانگ مارچ اور دھڑن تختہ کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر بات چیت کی جائے ۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے بھی کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی شکایات دور کریں اور دھرنوں سے نقصان کا اندیشہ ہو تو میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہو جائیں۔
بعض حلقوں نے ایم کیو ایم کے قائد کے اس بیان کا غلط مطلب لیا ہے ۔ انہوں نے بیان کے صرف وزیر اعظم والے حصے کو الگ کرکے دیکھا اور بیان کے سیاق و سباق سے اسے نہیں جوڑا ۔ ان حلقوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ الطاف حسین پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طر ف سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ الطاف حسین نے احتجاج اور لانگ مارچ کرنے والے لوگوں سے بھی یہی کہا ہے کہ وہ دھڑن تختہ اور لانگ مارچ کے بجائے مل بیٹھ کر بات کریں ۔ انہوں نے عوام ، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور وفاقی صوبائی حکمرانوں سے بھی یہی اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کو بچائیں ۔ ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے الطاف حسین نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کو بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سمجھنے کی بات کی ہے ۔ اپنے پورے بیان میں الطاف حسین نے ہر قسم کی محاذ آرائی سے بچنے کے لئے کہا ہے کیونکہ محاذ آرائی کے نتائج کسی بھی طرح اچھے نہیں نکلتے اور اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں ۔ انہوں نے افریقہ اوردنیا کے مختلف حصوں میں جاری محاذ آرائی کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں رونما ہونے والے درد ناک مناظر کا بھی حوالہ دیا ، جو ہر وقت ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ الطاف حسین نے ایسے خوف ناک حالات سے متنبہ کیا ہے ۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر محاذ آرائی اور دھرنوں سے جانی و مالی نقصان کا خدشہ ہو تو اس سے بچنے کے لئے وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہئے ۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کے بعض ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ صرف اور صرف وہاں کی سیاسی قوتوں کی محاذ آرائی کا نتیجہ ہے ۔ اگر اس محاذ آرائی سے اجتناب کیا جاتا تو آج وہاں صورت حال مختلف ہوتی ۔ مصر اور عراق سمیت بعض ملکوں میں عوامی طاقت کے ذریعہ دھڑن تختہ بھی کیا گیا لیکن وہاں بدامنی ، خونریزی اور عدم استحکام ختم نہ ہو سکا ۔ شام کی طرح کچھ ملکوں میں اپوزیشن کے احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ، اس کے باوجود وہاں امن اور استحکام پیدا نہ ہو سکا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب معاملات ان لوگوں کے ہاتھ میں بھی نہیں رہے ، جنھوں نے محاذ آرائی کا آغاز کیا تھا ۔ محاذ آرائی کے نتیجے میں غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل گیا ہے اور یہ ممالک پر امن جمہوری معاشروں کے قیام کی منزل سے بہت دور چلے گئے ہیں اسی محاذ آرائی کی وجہ سے بیرونی قوتوں کو بھی مداخلت کا جواز میسر آ گیا ہے اور اب معاملات ان ملکوں میں طے ہونے کے بجائے کہیں اور طے ہو رہے ہیں ۔ آپس کی محاذ آرائی کی وجہ سے فلسطین کے نہتے عوام اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اسی طرح براعظم افریقہ بھی داخلی تصادم اور محاذ آرائیوں کی وجہ سے تباہی و بربادی کا شکار ہے ۔ امریکی صدر اوباما نے افریقی ممالک کی کانفرنس بلائی ہے ۔ اس کانفرنس میں افریقی رہنماؤں کے پاس اپنی خونریز محاذ آرائیوں ، ایبولا وائرس کی تباہ کاریوں سمیت دیگر وبائی امراض ، بھوک اور افلاس پر رونا رونے کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ہے ۔ یہ کانفرنس بر اعظم افریقہ پر فخر کرنے کی بجائے رحم اور بے بسی کی علامت بن گئی ہے ۔ کہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے ملک کی ہی تاریخ پر نظر ڈال لینی چاہئے کہ ان سیاسی محاذ آرائیوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں جمہوریت قائم نہیں ہو سکی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان کے دو لخت ہونے کا عظیم سانحہ بھی سیاسی محاذ آرائی کا نتیجہ ہے ۔ باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری حکومت نے صرف ایک آئینی مدت پوری کی ، اس کے بعد پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہو گئی ۔ اس کی وجہ سے جو سیاسی بحران پیداہوا ، اس میں حکمرانوں اور تحریک چلانے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت دونوں نے تدبر اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مذاکرات اس وقت شروع کئے ، جب حالات بہت خراب ہو چکے تھے اور ملکی و بین الاقوامی قوتوں نے پاکستان میں اپنا کھیل کھیلنے کا مکمل موقع پیدا کر لیا تھا ۔ سیاسی قوتوں کی محاذ آرائی سے ملک طویل آمریت میں چلا گیا اور آج تک اس دور کی تباہی و بربادی سے نہیں نکل سکا ۔ اگر اس وقت تحریک چلانے والی سیاسی قیادت تدبر کا مظاہرہ کرتی اور حکومت طاقت کے استعمال کی بجائے افہام و تفہیم سے کام لیتی تو آج پاکستان بہت مختلف ہوتا ۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین پر گولیاں چلانے کا مرحلہ آنے سے پہلے وزیر اعظم بھٹو مستعفی ہو جاتے تو بھی مارشل لا کے امکانات ختم ہو جاتے ۔ 1988 ء سے 1999ء کے درمیان پھر جمہوری حکومتوں کو ایک وقفہ ملا ، جس میں بدترین سیاسی محاذ آرائی ہوئی ۔ اس مرتبہ بھی حکومت اور اپوزیشن میں شامل لوگوں نے وہی غلطیاں کیں ، جو 1977ء میں ہوئی تھیں ۔11 سال کا یہ عرصہ آج بھی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس عشرے کی سیاست کو نہ دہرایا جائے ۔ یہی بات ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کہہ رہے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ملک میں بدترین غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر سنگین مسائل ہیں ۔ ان پر توجہ دینی چاہئے اور سب کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس محاذ آرائی سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین نے خدا کا واسطہ دے کر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو بچائیں ۔ الطاف حسین کے بیان کو جانبداری کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے بلکہ تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے ۔ ایک ہفتے بعد پوری قومی سیاسی قیادت وہی بات کررہی ہے،جو الطاف حسین نے کی تھی ۔ پاکستان کو ایک اور المیے سے بچانے کے لئے عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری اور حکمرانوں سمیت سب کو الطاف حسین کے بیان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ مسائل کا حل محاذ آرائی سے نہیں بلکہ مذاکرات سے نکلتا ہے ۔