1985 ء اور 1988ء کا درمیانی عرصہ پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ عرصہ ہے، جب پاکستان کے دو اہم ترین جنرل ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان ، جنھوں نے سوویت یونین کے خلاف20 صدی کا سب سے بڑا جنگی معرکہ لڑا تھا ، امریکہ کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے تھے ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ دونوں ، افغانستان میں پاکستان کی جنگی کامیابیوں کو ضائع ہوتے دیکھنا نہٰیںچاہتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ سوویت یونین افغانستان سے نکل رہا ہے ، توافغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام بھی ضروری ہے ، ورنہ اندرونی بدنظمی کی وجہ سے افغانستان دوبارہ کسی بیرونی مداخلت کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوااور سوویت یونین کے نکلنے کے بعد مستحکم حکومت قائم نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ آج افغانستان میں پھر غیرملکی فوجیں موجود ہیں اور افغان سرحد پر پاکستان کی مشکلات بھارتی سرحد سے بھی کئی گنا زیادہ ہو چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کی موجودہ مشکلات کے تناظر میں17 اگست 1988 ء کے سانحہ بہاولپور کے پس پردہ عوامل کو سمجھنا اور بھی ضروری ہے ۔
یہ بات اب پایہء ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن عالمی سازش کاروں نے پاکستان کی فوجی قیادت کے خلاف یہ سازش تیار کی تھی ،ان کا نشانہ صرف جنرل ضیاالحق ہی نہیں، جنرل اختر عبدالرحمان بھی تھے کہ ان کو راستے سے ہٹائے بغیر یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس طرح یہ بات بھی امر مسلمہ قرار پا چکی ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی جنگی حکمت عملی کے معمار تھے ، اور انھوں نے ہی جنرل ضیاالحق کو یہ ا سکیم پیش کی تھی کہ سوویت یونین کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا ، جب امریکہ اور یورپ میں کوئی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست فاش دی جا سکتی ہے اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور پاش پاش کیا جا سکتا ہے ۔
جنرل اختر عبدالرحمان کو مگر پورا یقین تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں صرف ابتدائی مرحلہ ہی مشکل ہو گا ۔ ایک بار جب افغان قوم متحد ہوگئی ا ور سوویت یونین کے خلاف اس کی گوریلا جنگ شروع ہو گئی ، تو امریکہ اوریورپ بھی سوویت یونین کے خلاف پاکستان اور افغان مزاحمتی گروپوں کی مدد کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے ۔ جو لوگ افغانستان کے قبائلی نظام سے واقف ہیں ، ان کو معلوم ہے کہ افغان متحارب قبائل کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کارے دارد ہے ۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن نے مگر بہت ہی کم عرصہ میں یہ مشکل مرحلہ سر کر لیا ۔ یہ کام یابی کی طرف ان کا پہلا قدم تھا۔افغان مزاحمتی گروپوں کے اتحاد اور ان کیلئے فوجی امداد کی منصفانہ تقسیم نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی حق خود ارادیت کی جنگ میں بے پناہ قوت پیدا کر دی تھی۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کو دو سال گزر چکے تھے ، جب امریکہ اور یورپ نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کی بھرپور امداد کرکے یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے یہ صرف ایک خلیجی ملک تھا ،جو پاکستان کی مدد کر رہا تھا ۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کا بہت شروع سے یہ بھی خیال تھا کہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ اس وقت تک کام یاب نہیں ہو سکتی ، جب تک کہ افغان مزاحمتی گروپوں کو روسی فضائی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ا سٹنگر میزائیل مہیا نہ کیے جائیں ۔1986ء میں آخر کار انھوں نے امریکیوں کو بھی اس کے لئے قائل کر لیا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ س اسٹنگر میزائل ملنے سے افغان جنگ کا پلڑا بہت واضح طور پر افغان مزاحمتی گروپوں کے حق میں ہو گیا۔ لیکن ، ادھر سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا تھا ، ادھر امریکہ نے پاکستان میں جنرل اختر عبدالرحمٰن کو آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے الگ کر ا دیا ۔ مقصد اگرچہ یہ بھی تھا کہ ان کو افغان جنگ کی کام یابی کا سارا کریڈٹ نہ مل سکے ، لیکن ایک دوسرا مقصد بھی تھا ، اور وہ یہ تھا کہ سوویت یونین کو فوجی پسپائی کے دوران میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو ۔ اس کیلئے پہلے اوجڑی کیمپ کو دھماکے سے اڑایاگیا ، اوراس کا الزام بھی جنرل اختر عبدالرحمان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن سانحہ اوجڑی کیمپ سے پہلے ہی جنرل ضیاالحق ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر کر چکے تھے ، بعینی اوجڑی کیمپ کی نگرانی سے ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن کی حیثیت جنرل ضیاالحق کے دست راست کی تھی ۔ سانحہ اوجڑی کیمپ میں جنرل اختر عبدالرحمٰن کو ملوث کرنے کے سازش غٖمازی کر رہی تھی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن دشمنوںکی نظروں میں کھٹکنے لگے ہیں۔ جنیوا سمجھوتہ پر ان کا اور جنرل ضیاالحق کا یکساں موقف بھی امریکہ کو مشتعل کرنے کے مترادف تھا ۔ نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ اپریل 1988میں ، جب سانحہ اوجڑی کمپ کے ذریعہ جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان میں خلیج پیدا کرنے کی سازش ناکام ہو گئی تو اگست 1988ء میں دونوں کے خلاف ایک اور بھرپور سازش کی گئی۔ قوم کی بدقسمتی کہ اس بار یہ سازش کامیاب ہو گئی۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن اورجنرل ضیاالحق دونوں جام شہادت نوش کر گئے ۔لیکن پاکستان کے یہ دونوں جرنیل جاتے جاتے بھی اپنی قوم پر یہ ضرور ثابت کرگئے کہ جس طرح وہ پاکستان کیلئے سوویت یونین کے خلاف کھڑے تھے ، اس طرح وہ پاکستان کیلئے امریکہ کے خلاف بھی کھڑے تھے ۔ان کی زندگی کا مطمح نظر اول وآخر پاکستان اور صرف پاکستان تھا
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں