• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم آزادی کے موقع پر جذبوں کا ایک بحر بیکراں تھا جو کراچی سے لے کر پشاور تک موجزن تھا۔ اس بحر کی موجوں میں کیا بچّے، کیا بوڑھے، کیا مرد و زن اور کیا طلبہ و طالبات سب ہی شامل تھے۔ یہ تو کالم میں آگے چل کر بتائوں گا کہ ہم ایک ہیں یا نہیں مگر بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں اور کھلیانوں تک اور خیبر پختونخوا کی سرسبز وادیوں سے لے کر سندھ کے بارونق شہروں اور بنیادی سہولتوں کو ترستے ہوئے تھر کے صحرائوں تک نعرہ ایک ہی تھا، جذبہ ایک ہی تھا اور ولولہ ایک ہی تھا کہ:
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اگرچہ طبقاتی نظام نے پاکستان میں بڑوں کے درمیان ہی نہیں بچّوں تک کے درمیان امیر اور غریب کی ناقابل عبور لکیر کھینچ دی ہے، اس کے باوجود جب پاکستانیت اور آزادی کا جلترنگ بجتا ہے تو یہ ناقابل عبور لکیر وقتی طور پر مٹ جاتی ہے اور ہر جگہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دلوں کے تار بجنے لگتے ہیں کہ:
تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں
اس بار لاہور پولیس نے ون ویلنگ کے خونی کھیل کو مکمل طور پر کنٹرول کر رکھا تھا اور یوں گزشتہ سالوں کے برعکس اس سال یوم آزادی کے موقع پر لاہور میں مائیں جوان لاشوں سے لپٹ کر رونے اور نوحہ خوانی سے محفوظ رہی ہیں۔ پاکستانی نوجوان تمام تر نامساعد حالات میں بھی ناقابل یقین کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ غیرملکی یونیورسٹیوں میں جب پاکستانی عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں تو لوگ حیرت سے ان کا منہ تکتے ہیں کیونکہ بیرون وطن غیروں میں تو پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کیلئے مشہور ہے۔ جشن آزادی کی تقاریب میں ہر جگہ نوجوان پیش پیش تھے۔ ان کے جوان جذبوں میں مجھے امکانات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ جوانوں کا کارواں ہر جگہ موجود ہے مگر کوئی میر کارواں نہیں۔ کوئی میر کارواں محض کھوکھلے نعروں اور خوش نما اشتہاروں سے کام لیتا بلکہ کام چلاتا ہے اور کہیں میر کارواں لامتناہی دھرنوں سے نوجوانوں کے دلوں کو گرمانے کی کوشش کرتا ہے مگر کوئی بھی قافلہ سالار انہیں منزل کا پتہ دیتا ہے اور نہ ہی منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب سینیٹر سراج الحق نے بھی یوتھ اسمبلی کا نعرہ لگایا ہے۔ وہ بھی جوانوں کے کارواں کے میر کارواں بننا چاہتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کی یوتھ انہیں اپنا قافلہ سالار تسلیم کرتی ہے یا نہیں، تاہم ان کی شخصیت میں ایک کشش نوجوانوں کو ضرور دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کے دو بار وزیر مالیات رہنے کے باوجود ان کے دامن پر کسی مالی و اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔
ہمارے بزرگوں اور دانشوروں کا محبوب مشغلہ نوجوانوں پر تنقید کرنا ہے۔ تاہم اگر ان ہی نوجوانوں کو ان کی منزل بتائی جائے، انہیں واضح ڈائریکشن دی جائے اور انہیں اپنا اپنا کام سمجھا دیا جائے تو وہ معجزے برپا کر سکتے ہیں۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ ہمیں تو زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں، اسی ڈائریکشن کی بنا پر چین آئے روز کارنامے انجام دے رہا ہے اور اس کی معیشت و سیاست نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ سرگودھا میں ہمارے ایک نہایت دین دار بزرگ حکیم عبدالرحمٰن ہاشمی (مرحوم) تھے، اللہ نے ان کے ہاتھ میں جسمانی و روحانی شفا عطا کر رکھی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ ہاشمی صاحب کے قبضے میں جن ہیں۔ اگر حکیم صاحب جنوں کو چند لمحات کیلئے فارغ چھوڑ دیتے تو وہ توڑ پھوڑ پر اتر آتے اس لئے فارغ اوقات میں حکیم صاحب انہیں ہدایت کرتے کہ اگلا حکم ملنے تک فلاں درخت پر چڑھتے اترتے رہو۔ عربی لسانیات میں جن اور جنوں کا مادہ ایک ہی ہے اس لئے ان دونوں کو حدودوقیود کا پابند بنانا اور انہیں مناسب کام پر لگانا روحانی و سیاسی قیادت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ یوم پاکستان کی تقاریب کے دوران انفرادی طور پر اور مختلف سیمیناروں میں نوجوانوں سے تبادلۂ خیال کا موقع بھی ملا۔ نوجوانوں نے ان گفتگوئوں میں بالعموم تین سوالات پوچھے۔ دو سوالوں کے جواب تو میں نے دیئے جس سے نوجوانوں کی تشفی ہو گئی البتہ تیسرے سوال کا جواب میرے پاس نہ تھا۔ اس کیلئے میں نے نوجوانوں سے عرض کیا کہ وہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے رجوع کریں۔ پہلا سوال قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کی شخصیات کے بارے میں تھا۔ میں نے نوجوانوں کو بتایا کہ قائداعظمؒ کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ منافقت تو انہیں دور سے بھی چھو کر نہ گزری تھی۔ جادو وہ ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ تقسیم سے قبل مسز سروجن نائیڈو کانگریس کی ایک اہم ہندو لیڈر تھیں۔ ایک مرتبہ بلبل ہندوستان سروجن نائیڈو تاج محل ہوٹل ممبئی میں مقیم تھیں، ان کے کمرے میں شاعروں، دانشوروں اور سیاستدانوں کا مجمع تھا۔ اس موقع پر ایک کانگریسی مسلمان سیاستدان نے قائداعظم کو انگریزوں کا ’’زر خرید‘‘ کہہ دیا۔ یہ سنتے ہی مسز سروجن نائیڈو آگ بگولا ہو گئیں اور کہنے لگیں:’’کیا کہا تم نے؟ جناح انگریزوں کا زرخرید ہے؟ تم بک سکتے ہو، میں خریدی جا سکتی ہوں، باپو (گاندھی) اور جواہر لعل نہرو کا سودا بھی شاید ہو سکتا ہے مگر جناح انمول ہے، اسے کوئی نہیں خرید سکتا۔‘‘ اب ذرا گاندھی جی کی سادگی کی اندرون خانہ کہانی ان ہی مسز سروجن نائیڈو سے سنیے۔ ایک روز متحدہ ہند کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے مسز سروجن نائیڈو سے کہا:میں نہیں سمجھتا کہ آپ لوگ مہاتما گاندھی کو تھرڈ کلاس میں سفر کرنے اور بھنگیوں کی بستی میں اچھوتوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے کر اپنی اپنی قیمتی متاع کیلئے خطرہ کیوں مول لیتے ہیں۔ جواب میں مسز سروجن نائیڈو نے گاندھی جی کی دوہری شخصیت کے کئی پردے چاک کئے۔ ہم جس تھرڈ کلاس ڈبے کا انتخاب کرتے ہیں اسے پہلے خوب اچھی طرح دھو لیتے ہیں۔ ان کے ڈبے میں کسی عام مسافر کو نہیں بیٹھنے دیا جاتا۔ وہ سارے ’’مسافر‘‘ کانگریس کے انتہائی بااعتماد لوگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے انتظامات بھنگیوں کی بستی میں بھی کئے جاتے ہیں۔ مسز نائیڈو نے مزید کہا کہ باپو کی اس ’’مفلسی اور غریب پروری‘‘ کیلئے کانگریس کو زرکثیر خرچ کرنا پڑتا ہے۔
نوجوانوں کا دوسرا سوال یہ تھا کہ تقسیم ہند کا ایسا نقشہ کیوں قبول کیا گیا جس کے نتیجے میں مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریت والے کئی علاقے ہندوستان کو دے دیئے گئے اور اسی تقسیم کے نتیجے میں سکھوں کو مسلمانوں کے وہ علاقے تاراج کرنے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا موقع ملا جن کے بارے میں سمجھا جا رہا تھا کہ وہ ہر صورت پاکستان کا حصّہ ہوں گے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کو انگریزوں نے ہندوئوں کے ایما پر آخری لمحات میں بدل کر تاریخی بددیانتی کی۔ تقسیم سے پہلے چوہدری محمد علی، قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر غالباً دس اگست 1947ء کو وائس رائے ہائوس دہلی پہنچے۔ انہیں پتہ چلا کہ لارڈ اسمے اور ریڈ کلف بند کمرے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ دونوں تقسیم کے منصوبے کو آخری شکل دے رہے تھے۔ انہوں نے لارڈ اسمے کو محمد علی جناح کا پیغام پہنچایا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں پنجاب کی سرحدوں خاص طور پر ضلع گورداسپور کے بارے میں فیصلے کے متعلق تشویشناک اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر ایساکیا گیا تو یہ اقدام پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات پر بہت منفی اثر ڈالے گا۔ لارڈ اسمے نے یہ باتیں سن کر کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ اس دوران محمد علی کی نگاہ لارڈ اسمے کے کمرے میں لٹکے نقشے پر پڑی۔ نقشے پر پینسل سے ایک لکیر کھینچی ہوئی تھی۔ محمد علی نے کہا یہ تو وہی لکیر ہے جس پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ یہ سن کر اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا کیونکہ انگریزوں کی بددیانتی پکڑی گئی تھی۔
نوجوانوں کا تیسرا سوال تازہ ترین حالات کے بارے میں تھا کہ بھارتی وزیراعظم انڈین فوجیوں کے ذریعے نہتے کشمیریوں پر قیامت ڈھا رہا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں 70سے زائد کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی کھلم کھلا بلوچستان میں مداخلت کی باتیں کر رہا ہے۔ ادھر پاکستانی وزیراعظم کسی عالمی فورم پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہے اور نہ ہی وہ مودی کی ہرزہ سرائی کا کوئی جواب دے رہے ہیں اور نہ ہی پاکستانی حکومت کشمیریوں کی آزادی کیلئے کوئی ٹھوس اقدام اٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ نوجوانوں کے اس سلگتے ہوئے سوال کا جواب حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ذمے ہے۔ ہم تو سیاستدانوں کو اتنا یاد دلائیں گے کہ جواں جذبے پاکستان میں معجزے برپا کر سکتے ہیں۔ ان کی فکر کریں کیونکہ:
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کیلئے


.
تازہ ترین