• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اگر جناح صاحب زندہ ہوتے تو ان سے یہ ضرور پوچھتا کہ اے قائداعظم کیا آپ نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ یہاں جمہور کے بالمقابل جبر اور دھونس کی حکمرانی قائم ہو۔ اکیسویں صدی میں بھی یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہو۔ سر سید ٹھیک کہتے تھے کہ مسلمانان جنوبی ایشیا کو تعلیم و تہذیب کی ضرورت ہے۔ اجتماعی قومی شعور کو سر بلند کرنے کی ضرورت ہے لیکن مجھے گلہ قوم سے نہیں ذمہ داران قوم سے ہے۔ عسکری و مذہبی قوتوں سے ہے اپنے الیکٹرانکس میڈیا سے ہے اور کسی حد تک قومی سیاسی و دانش سے ہے۔ جن ملکوں اور قوموں میں آئین، پارلیمنٹ اورمضبوط جوڈیشری جیسے ادارے نہیں ہوتے وہاں اگر دھینگا مشتی ہوتی ہے تو قابل فہم ہے لیکن وطن عزیز پاکستان تو ایسا گیا گزرا ملک نہ تھا بلاشبہ ہمارا اجتماعی سیاسی و شعوری ریکارڈ قابل فخر نہیں رہا ہے یہاں وقفے وقفے سے چار مرتبہ فوجی آمریتیں مسلط ہوئی ہیں لیکن پہلی قابل اطمینان حقیقت یہ ہے کہ یہ عوامی جمہوری جدوجہد ہی تو تھی کہ آمریتوں کو ہمیشہ برے بھلے انتخابات کروانے پڑے کمزور ہی سہی لیکن جمہوری سٹرکچر قائم کرنا پڑا دوسری قابل اطمینان بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے کبھی شدت پسند مذہبی جماعتوں کو قابل تحسین مینڈیٹ نہیں بخشا۔ بلاشبہ ہماری کمزور جمہوریتیں کبھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکیں جہاں ہارنے والوں نے اہل مغرب کی طرح جیتنے والوں کو مبارکباد دی ہو یا شاید ہی کوئی ایسے انتخابات ہوئے ہوں جن میں ہارنے والوں نے دھاندلیوں کے الزامات عائد نہ کیے ہوں۔
وطن عزیز میں ہنوز جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں 1970ء کے انتخابات کو سب سے زیادہ شفاف اور منصفانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن ان انتخابات کا حشر قابل ملاحظہ ہے اس ملک کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ان انتخابات میں بھی جیتنے والوں کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے جبر اور دھونس سے کام لیتے ہوئے ایک آمر کی آشیرباد سے ملک کے دو ٹکڑے کروا دیے گئے درحقیقت ہوس اقتدار میں لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ یہ ذمہ داران قوم کا فرض ہوتا ہے کہ ایسے Critical حالات میں عقل کے اندھوں کو ہوش کے ناخن دلائیں ان کی بہکی ہوئی ہوس کا نشہ اتاریں بصورت دیگر ایسے ہوس پرستوں کے خلاف سب مل کر قومی ایکتا کا مظاہرہ کریں۔ جتنے بھی باہمی اختلافات ہوں قومی بربادی کے خلاف یک سو و یکجاں ہو جائیں۔اسےنازک مواقع پر زندہ و باشعور اقوام کا یہی قومی اسلوب ہونا چاہئے۔
افسوس ہم نے اپنی سات دھائیوں پر مشتمل قومی تاریخ سے بھی کچھ نہیں سیکھا کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں عسکری سائے تلے دبی جمہوریت کا پودا کتنا کمزور و ناتواں ہے اسے توانا بنانے کیلئے کس قدر صبرآزما کاوش اور حساسیت کی ضرورت ہے اس کے اوپر براجمان و سایہ فگن ٹہنیوں کو کاٹنے یا چھانٹے میں کتنی باریک بینی و حکمت عملی کی ضرورت ہے اسے پالنے پوسنے کیلئے مناسب پانی و حفاظتی جنگلے کی کتنی اہمیت ہے اس کے توانا درخت بننے پر بھی قوم اس کے پھل اور سایہ سے مستفید ہوسکتی ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کو منصفانہ و غیرجانبدارانہ بنانے کیلئے اتنا زیادہ اہتمام کیاگیا جتنا اس سے قبل کبھی نہ کیا گیا تھا۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد جس خوش اسلوبی سے پرامن انتقال اقتدار ہوا اسے دیکھتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ الحمد اللہ وطن عزیز کی سیاست میچورٹی کی راہوں پر چل نکلی ہے۔
اب ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے فیوض و برکات کی بدولت کوئی طالع آزما یہ جرات نہ کرسکے گا کہ وہ جمہوریت کے پودے کو اوپر ہی سے اچک لے۔ کوئی سیاسی بونا پوری قومی سیاست کا بیڑا غرق کرسکتا ہے۔ جیسے ہم نے عرض کیا کہ آخر پاکستان کے کون سے انتخابات ہیں جب دھاندلی کے الزامات نہیں اٹھے اس میں بھی کوئی شک نہیں جہاں جس کا زور چلتا ہے کم کوئی بھی نہیں کرتا لیکن شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ سخت سے سخت بات کرنے کا بھی کوئی اسلوب ہوتا ہے کوئی ادب آداب ہوتے ہیں کوئی اصول ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو دھاندلی کی اتنی بھاری شکایت تھی تو پھر آپ نومنتخب اسمبلی میں حلف اٹھانے کس برتے پر گئے تھے؟ آپ کے پارٹی صدر نے اسمبلی فلور پر یہاں تک کہہ دیا کہ نوازشریف کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی میرے لیڈر ہیں۔ قومی سیاست کا نہ سہی کم از کم اپنی ذات کا ہی کچھ بھرم رہنے دو۔ 1977ء میںقومی اتحاد کی مثال ہی ملاحظہ کرلو جب انہوں نے یہ کہہ دیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو کیا کوئی ایک فرد بھی حلف اٹھانے اس جعلی اسمبلی میں گیا؟ ملک کا کونسا کونہ گوشہ ہے جہاں سے احتجاجی تحریک کا طوفان نہ اٹھا ہو۔ اتنی گرفتاریاں کہ جیلوں میں گنجائش نہ رہی اس سب کے باوجود کسی نے مذاکرات سے انکار کیا نہ اوچھے منہ سے بدبو پھینکی۔ مہینوں مذاکرات ہوتے رہے لیکن آپ جیسے ہی ایک ریٹائرڈ ائر مارشل کی ہٹ دھرمی سے بالآخر مہربانوں نے سب کو چلتا کیا ہاتھ اس کے بھی کچھ نہ آیا اورآج بھی کہیں کمانستا فضا میں جراثم چھوڑ رہا ہوگا۔ ہم پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ ہم ایسی کوئی نہ کوئی حرکت کرتے ہیں اور بعدازاں تقدیر یزداں کو پڑھ کر روتے ہیں۔ 77ء کے بالمقابل 2013ء میں تو ویسی کوئی مماثلت تک نہ تھی جس شریف و متین انسان پر گھٹیا تہمتیں لگا رہے ہو اس کی مہربانی سے ایک صوبے کی حکمرانی سنبھالے ہوئے ہو۔
اس تمام تر تلخ نوائی کے باوجود ہمیں گلہ کسی سیاسی اناڑی کی ناتجربہ کاری یا ہوس اقتدار سے نہیں ہے قومی سیاست و دانش سے ہے کہ ملک اتنی خطرناک کھائی کی طرف جارہا ہے اور وہ ہلکے پھلکے بیانات سے آگے بڑھ کر قومی ایکتا کا وہ ٹھوس مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں جس کا تقاضا آئینی اور میثاق جمہوریت کررہے ہیں احتجاجی مارچ یا استعفٰے کے مطالبات اگر خلاف آئین نہیں ہیں تو کیا جتھے بندی کرتے ہوئے آئینی اداروں پر چڑھائی کے اعلانات مطابق آئین ہیں؟ یہ کیسی جسارت ہے کہ کوئی چند ہزار یا چند لاکھ افراد جمع کر لے اور کہے کہ میں ریڈیو، ٹی وی اسٹیشن، پارلیمنٹ یا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کر لوں گا۔ اگر داڑھی والے طالبان اس نوع کی کاوش کریں تو فوجی آپریشن کے سزاوار ٹھہریں لیکن اگر بے داڑھی کے طالبان یہ دھاوا بولنے کا داعیہ کریں تو ہمارا قومی میڈیا انہیں ہیرو بنا کر دکھائے؟ اگراس شغل میلے میں جمہوریت پر وار ہوگیا تو دیگر کالی بھیڑوں کے ساتھ غیر ذمہ دار میڈیا بھی اس میں برابر کا شریک گردانا جائے گا وطن عزیز کی اعلیٰ و سپریم جوڈیشری نے بروقت انتباہ کردیا ہے خدارا وقت و حالات کی سنگینی کو سمجھا جائے اس سےآئین و جمہوریت کی جو تذلیل ہوگی سو ہوگی وطن عزیز کی بھی بنیادیں ہل جائیں گی۔
تازہ ترین