SMS: #KMC (space) message & send to 8001
کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والے دھماکے کے بعد بعض اداروں پر انگلیاں اٹھائی گئی ہیں، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہمیشہ یہ ہی ہوتا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ ان اداروں نےدہشت گردی کا بہت بڑا نیٹ ورک ختم کر دیا ہے۔بلوچستان کے وزیر داخلہ ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں اور حالیہ دھماکے کے بعد بھی انہوں نے کہا ہےکہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارتی ایجنسی را ملوث ہے،اس سے بڑا ثبوت پاکستان کے پاس اورکیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر کلبھوشن بلوچستان سے گرفتار ہوا ہے۔جس نے اپنے تمام جرائم کا اقرار بھی کیا اور میڈیا کے سامنے بھی اسکی ویڈیو پیش کی۔دنیا نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی فوج قابل ترین فوج ہے جو ایک وقت میں مختلف محاذوںپرالجھی ہوئی ہے۔ یہی فوج تو ہے جس کی وجہ سے ملک محفوظ ہے۔ اعتراض کرنے والے ذرا سوچیں چند برس قبل جب زلزلہ آیا تھا تو اسوقت وہاں کی عوام کی مدد کس نے کی تھی۔ پاکستان کا بچہ بچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ ہے۔کوئٹہ سانحہ کے بعد صوبوں نے سوگ کا اعلان کیا اور وکلا و صحافیوں نے احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا۔ زخمیوں کو کراچی بھی منتقل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کب تک نشانہ بنتی رہے گی؟دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھا لیا۔ بازاروں، مسجدوں، اسکولوں، اسپتالوں میں خون بہانے والے مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔یہ ملت اسلامیہ کے دشمن ہیں اور اغیار کے ہاتھو ں استعمال ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی ایجنسیاں پہلے سے حملے کر رہی ہیں۔ را کے ایجنٹ یہاں موجود ہیں جنہیں بھارت کی طرف سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔ انڈیا خطے میں دہشت گردی کا ماحول پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دہشت گردانہ ذہنیت پوری دنیا پر عیاں ہوگئی ہے۔ وہ انسانی حقوق اور یو این کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی زبان سے پہلی بار سنا کہ کوئٹہ حملے میں بھارت کا ہاتھ خارج از امکان نہیں۔ یہ جنگی او رغیر معمولی حالات ہیں۔ کوئٹہ میں بہنے والاخون صرف وکلاء اورصحافیوں کا نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا ہے۔بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکا کر کشمیر میں جاری تحریک سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ اجیت دوول نے کہاتھا کہ ہم بلوچستان کو پاکستان سے الگ کریں گے اور مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کریں گے۔ ان تخریب کاروں کے پیچھے بھارت ہے اور یہ اس کی ریاستی دہشت گردی کا واقعہ ہے۔اس پر پاکستانی کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔ دہشت گردی میں 172صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سانحہ اے پی ایس کی بعد جس طرح قوم متحد ہوئی تھی اب بھی اسی طرح متحد ہو اور دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں افواج پاکستان کا ساتھ دے۔اگر ہم اب بھی متحد نہ ہوئے اور صرف تنقید اور بیان بازی میں مصروف رہے تو دشمن مزید قوت کے ساتھ ہم پر وار کرے گا۔
.