• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلگت بلتستان کے لوگوں نے 14 اگست 1948ء کو اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی۔ 1948ء کی جنگ میں حصہ لینے والے نڈر عوام پیشہ وارانہ دفاعی تربیت سے آشنا تھے اور نہ ہی ان کے پاس باقاعدہ اسلحہ تھا لیکن ڈوگرہ راج سے نجات حاصل کرنے کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ انہوں نے ڈنڈوں اور پتھروں کی مدد سے فوج کا ساتھ دے کر ظالم راج کا خاتمہ کردیا۔ اسی سے ان کی بہادری اور حب الوطنی کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ ڈوگرہ راج سے آزادی کے بعد یہاں کے لوگوں نے اپنی خوشی اوررضامندی سے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان نے ان کو اپنا شہری تسلیم نہیں کیا حالانکہ یہاں کے 99.9 فیصد لوگ پاکستان سے غیرمشروط محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔ 14 اگست کے دن میں وہاں موجود تھی اور 14 ہزار فٹ اونچائی پر موجود جھیل ڈسوئی کی طرف جاتے ہوئے میں نے ہرگاڑی، سائیکل، موٹر سائیکل اور گھر کی چھت پر پاکستانی پرچم کولہراتے اور لوگوں کو خوشی سے نعرے لگاتے اور پاکستان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے آزادی کا جشن مناتے دیکھا۔ ان کی زندگی اور دکھ سکھ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن پاکستانی حکومت کی طرف سے ابھی تک انہیں پاکستانی شہری کا اسٹیٹس نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بھارت اسے جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے اس لئے اسے متنازعہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ 1970ء میں اسے شمالی علاقہ جات کے نام سے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا دیا گیا۔ 1993ء میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا تو یہاں کے باشندوں نے اس کے خلاف شدید مزاحمت کی جس کے باعث سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے منسوخ کردیا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے اصرار اور مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے 2009ء میں ایک آرڈیننس کے تحت سابقہ حکومت نے اسے سیلف گورننس علاقہ قرار دے دیا۔ پاکستانی کابینہ کی منظوری اور صدرِپاکستان کے دستخط کے بعد قانونی طورپر پاکستان کا حصہ بنائے بغیر اسے ایک ڈی فیکٹو صوبے کی حیثیت دے دی گئی یعنی صوبے کی طرح کا طرزِ حکومت۔ اس قانون کے پاس ہونے کے بعدیہاں منتخب قانون ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ دیگر صوبوں کی طرح گورنر، وزیر اعلیٰ، وزراء اورممبران نے انتظام سنبھالا۔ گلگت بلتستان کی علیحدہ سیکرٹریٹ وجود میں آئی اور باقاعدہ چیف سیکرٹری کی تعیناتی ہوئی۔ کہنے کو یہ تمام عہدہ جات اصلی ہیں مگر اختیارات کی بات کی جائے تو صوبے کے اعلیٰ ترین عہدے پرمتمکن ہستی یعنی وزیراعلیٰ بلتستان وزیراعظم پاکستان کی بجائے وزیر امورِ کشمیر کے ماتحت ہیں اور انہیں ہر معاملے میں ان سے صلاح مشورہ کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں مرکز میں گلگت بلتستان کی نمائندگی بالکل بھی نہیں ہے جس کا یہاں کے باشندوں کو شدید دکھ ہے کیوں کہ وہ خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں اور پاکستانی کہلانا بھی چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جشنِ آزادی کی تقریبات کے حوالے سے وہاں میرا جانا ہوا تو ہر خاص و عام نے مجھ سے ایک ہی مطالبہ کیا کہ آپ اپنے اخبار کے ذریعے ہماری خواہش اور تمنا حکومت ِ وقت اور عوام تک پہنچائیں کہ ہم دل و جان سے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں جو رعایتیں دی گئی ہیں وہ واپس لے لی جائیں مگر ہمارے صوبے کو دیگر صوبوں کی طرح مکمل اختیارات دیئے جائیں اور مرکز میں نمائندگی کا حق تسلیم کیا جائے۔ اسلم سحر جو یہاں کے نمائندہ شاعر ہیں نے درست کہا کہ ’’پاکستان ان قوتوں کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے جو شب و روز علیحدگی کی بات کرتی ہیں مگر ہم جڑت کی بات کرتے ہیں تو ہماری طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟‘‘ یہاں جو فنڈڈ علیحدگی پسند تنظیمیں موجود ہیں وہ اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود صرف چونتیس افراد کو اپنا ہم نوا کر سکی ہیں جنہیں لوگ بالکل پسند نہیں کرتے۔ اس علاقے میں قدرت کے حسین نظاروں سے مزین وادیاں، پہاڑ اور دریا موجود ہیں جن کے ذریعے نہ صرف سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے بلکہ دفاعی حوالے سے بھی یہ پاکستان کا حصار بن سکتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی علاقے میں واقع ہے جو کہ ایک امتیاز اور فخر کا باعث ہے۔ 14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع جھیل ڈسوئی ابھی تک سیاحوں کی توجہ سے اس لئے محروم ہے کیوں کہ اس طرف جانے والی سڑک نہایت دشوار گزار ہے اور سال میں صرف دو مہینے اس سڑک پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ڈسوئی کے مقام پر برف پگھلنے کے نتیجے میں بہنے والے نالے کا رخ ہمسایہ ملک کی طرف ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سا پانی جو پاکستان کی زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے یہاں ایک بند بنانے کا منصوبہ بنایا گیا مگر وہ ابھی تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح جنگلی حیات کو خطرہ ہو سکتا ہے حالانکہ اس مقام پر جو درجہ حرارت ہے وہاں صرف بھورے رنگ کے چوہوں کے علاوہ کوئی مخلوق نہیں دیکھی گئی۔ ویسے بھی اگر جنگلی حیات موجود ہے تو وہ اپنا رخ پانی کی طرف کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں گلگتبلتستان کی جھیلوں، آبشاروں اوردریائوںسےپن بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبے لگائے جا سکتے ہیں لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب حکمران اور اپوزیشن جماعتیں آپس کی رسہ کشی کی بجائے ملکی مفادات کو مدنظر رکھیں اور آنے والے دنوں میں پیش آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی تیاری کریں۔ زیادہ تر لوگ سر کاری ملازمت کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ سال کا زیادہ عرصہ برف باری کا موسم رہتا ہے اس لئے محنت مزدوری کرنے والے تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر یہاں کی سڑکیں بہتر ہو جائیں،راستوں کو محفوظ بنا دیا جائے تو سیاحوں کی آمد سے آبادی کو روزگاری کے مواقع نصیب ہوں گے۔آج کل فعال اور نیک صفت افسر راجہ سلطان سکندر یہاں کے چیف سیکرٹری ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ اس کے آئینی حق کا مقدمہ بھی اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے۔ میری حکومت ِ وقت سے درخواست ہے کہ وہ اس علاقے کی دفاعی حیثیت اور یہاں کے لوگوں کی حب الوطنی کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر آئینی اقدامات کرے۔ جب یہاں کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے تو پھر اسے متنازعہ علاقہ قرار دینا درست نہیں۔ اسی سال قانون ساز اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی ہے اور دسمبر میں الیکشن کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان انتخابات کے دوران یہاں کے لوگوں کو حقِ رائے دہی کا موقع دے کر اس کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین