• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ پاکستان کے معاملات میں ملوث نہ ہو۔ عمران خان نے تند تیز لہجے میں امریکہ کو وارننگ دی تھی امریکہ نے اس کا جواب نرم دھیمے لہجے میں دیا کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کررہا اپنا موقف بیان کرتے ہوئے امریکہ نے کہا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی حکومت سے مل کر اس لئے کام کرتا رہے گا کہ پاکستان کی منتخب حکومت ہے اور نواز شریف منتخب وزیر اعظم ہیں۔امریکہ نے اپنا جو موقف بیان کیا ہے اس کے پیچھے وجوہات ہیں اسے عمران خان اور ان کے ساتھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہئے کہ پاکستان میں آج جو منتخب حکومت ہے اور اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی میعاد پوری کرکے گئی ہے یہ سب کچھ این آر او کی بدولت ہوا ہے اگر اس وقت امریکہ برطانیہ اور کچھ اور ممالک پرویز مشرف کو آمادہ نہ کرتے کہ وہ الیکشن کرائیں تو نہ الیکشن ہوتے اور نہ پاکستان میں پیپلزپارٹی حکومت بنا سکتی۔اس سارے معاملے کے پس پردہ امریکہ کا ہاتھ تھا اور وہی معاملات کو درست سمت میں چلانے کا ضامن بھی ہے۔ اگر ضامن نہیں بولے گا تو کیا کرے گا اور یہ وہ ضامن ہے کہ ماضی میں جب ایوب خان نے امریکی پالیسی کی مخالفت شروع کی تو ان کا برا وقت ہم نے دیکھا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کی مخالفت شروع کی جس سے امریکی مفادات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے چنانچہ اپنے دور کا مقبول ترین سیاسی لیڈر پھانسی چڑھا دیا گیا۔
امریکہ کے جس ملک اور جس علاقے میں مفادات ہیں وہ وہاں مداخلت کرتا ہے ابھی افغانستان میں چند ہفتوں پہلے امریکی مداخلت کا منظرنامہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ وہ وہاں اب یونٹی گورنمنٹ بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ جہاں بھی اس کے اسٹرٹیجک مفاد کو خطرہ ہو وہاں وہ اپنی ضرورتوں کے مطابق پوزیشن لیتا ہے میں نے 3؍جولائی 2014ء کے بعد جو کالم لکھے ہیں ان میں امریکی سیاسی طرزعمل کا ذکر ہے پڑھ کر دیکھ لیجئے اب تو امریکہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ امریکہ پاکستان میں اپنی مخالف حکومت کسی قیمت پر قائم نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے دوسرے پاکستان کے اندر اور ریاستی اداروں میں اس کے اثرات بہت اندر تک سرایت کئے ہوئے ہیں وہ ان کو اپنے حق میں استعمال کرکے اپنے مفادات کی حفاظت کرتا رہا ہے اور کررہا ہے۔یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ پاکستان اس سطح پر اور نہ اتنے مفادات امریکہ سے حاصل کرسکا جتنے وہ کرسکتا تھا اس کی بڑی وجہ پاکستان میں نااہل حکومتوں اور کمزور قیادت تھی اور ہے۔ جیسے ہی این آر او کے سائے میں حکومتیں وجود میں آئیں انہوں نے NRO کی شرائط کو پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے ضامن ملکوں اور خاص طورپر امریکہ کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کے خلاف جذبات پیدا ہوئے۔ لیکن امریکہ کی یہ مجبوری ہے کہ وہ پاکستان سے اختلاف کے باوجود اپنے تعلقات بہتر رکھے اور یہ جب تک ہے جب تک امریکہ افغانستان سے نکل نہیں جاتا۔
سابق صدرزرداری بڑی نپی تلی گفتگو کرتے ہیں وہ اچھے مذاکرات کار ہیں انہوں نے اپنی صدارت کا دور باوجود سیاسی مشکلات کے اور مخالفتوں کے پورا کیا اور جب میاں نواز شریف کی حکومت برسراقتدار آئی تو وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے میاں صاحب کے پہلے دو ادوار کی طرح ان کا یہ دور بھی خطرات کی زد میں آگیا اور یہ ان کے رفقائے کار کی وجہ سے ہوا معاملہ اتنا بگڑ گیا ہے کہ آصف زرداری کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ اب بھی ان کے کچھ رفقاء ان کی حکومت کو تارپیڈو کررہے ہیں۔پس منظر میں کیا ہورہا ہے اس کا ادراک حکومت کو خود کرنا چاہئے جب میاں نواز شریف عمرے کے لئے سعودی عرب گئے تھے تو اس کے پیچھے اور بھی مقاصد تھے سابق صدر آصف علی زرداری امریکہ گئے تھے میں نے ان دونوں دوروں کے بارے میں 26؍جولائی 2014ء کے اپنے کالم میں تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ ’’اگر وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا جائزہ لیا جائے اور سابق صدرآصف زرداری کے دورہ امریکہ پر تجزیاتی نظر ڈالی جائے تو پاکستان جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے یہ بحران دونوں لیڈروں کے بیرونی دوروں کے محرک ہیں‘‘۔
اب امریکی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے سابق صدر آصف زرداری کے دورہ امریکہ سے پہلے یہ تاثر عام ہورہا تھا کہ امریکہ میاں نواز شریف کی حکومت سے ناخوش ہے لیکن زرداری صاحب کے دورے کے بعد امریکہ کا رویہ اور سمت تبدیل ہوگئی ہے۔ ہوسکتا ہے زرداری صاحب امریکی حکومت کی سوچ اور وارننگ میاں نواز شریف تک پہنچانے کے لئے رائے ونڈ گئے ہوں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے دورہ امریکہ کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے وہاں جا کر امریکی حکومت کی سوچ تبدیل کرادی ہے اور اس کے نتیجے میں بعد میں امریکی حکومت کے بیانات نے پاکستان میں سیاسی فضا کو تبدیلی کی طرف موڑدیا ہے۔ اس وقت جو بحران ہے وہ صرف اور صرف میاں نواز شریف حل کرسکتے ہیں ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب انہیں یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ یہی بات میں اپنے جمعرات 21؍اگست 2014ء کے کالم میں لکھ چکا تھا لیکن ذرا دوسرے اندازسے ’’کیا ایسے شخص کے لئے وزیر اعظم ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے جو پہلے بھی دو دفعہ وزیر اعظم رہا ہو انہیں اگر عوام چاہتے ہیں تو انہیں تیسری بار بھی وزیر اعظم رہنا چاہئے لیکن کیا یہ مناسب نہ تھا کہ وہ محض سیاسی لیڈر بننے کے بجائے قوم کے رہنما بن کر سامنے آتے‘‘۔ یہ نہ بھولئے کہ امریکہ جیسے مفادات اس علاقے میں عوامی جمہوریہ چین کے بھی ہیں پاکستان کو چین کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ میرے 9؍اگست 2014ء کے کالم کی روشنی میں دیکھا جائے تو پیش منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی میں یہاں اس کا اقتباس درج کرتا ہوں ’’عوامی جمہوریہ چین پاکستان سے مل کر اس علاقے میں کسی طاقت کو بالادستی حاصل نہیں کرنے دے گا جو یقیناً امریکی اور یورپی مفادات کو متاثر کرے گا۔ امریکہ برطانیہ اور بعض خلیجی ممالک NRO کے ذریعہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بڑے محرک تھے اس عمل میں پیپلزپارٹی کی قیادت کا اہم رول تھا جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں انتخابات ہوئے تو اقتدار پیپلزپارٹی کو ملا ایسا میثاق جمہوریت ایک سمجھوتے کے تحت ہوا شروع شروع میں مسلم لیگ (ن) بھی اقتدار کا حصہ رہی لیکن بعد میں اس نے وزارتیں چھوڑ دیں لیکن پیپلزپارٹی کی حمایت کرتی رہی اس کو فرینڈلی اپوزیشن کہا گیا جب پیپلزپارٹی کے دور میں الیکشن ہوئے تو میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ (ن) لیگ کے دور میں یہ راز آہستہ آہستہ منظرعام پر آگیا کہ این آر او کے مطابق یہ پانچ سال کا دور ن لیگ کو پورا کرنا ہے جس کے لئے پیپلزپارٹی (ن) لیگ کی حمایت کرتی رہی تھی‘‘۔
اب کہا جارہا ہے کہ یہ پرویز مشرف کے خلاف حکومت کی قانونی کارروائی کی وجہ سے ہوا ہے لیکن یہ ایک غلط سوچ ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کسی کے آلہ کار نہیں بن سکتے۔ دونوں کا مطمع نظر اب ایک ہے حکومت کا خاتمہ۔ زرداری صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا مقصد حکومت بچانا نہیں جمہوریت کو بچانا ہے۔ فرق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔دونوں پارٹیاں دبائو بڑھارہی ہیں یہ معاملات کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو ریاست کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ریاست کو بچانے کے لئے تیسری قوت میدان میں آسکتی ہے اس لئے جلد سے جلد مذاکرات کے ذریعہ کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے یہ صورت حال امریکہ اور چین دونوں کو تشویش میں مبتلا کررہی ہے۔
تازہ ترین