• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سابق عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف اکثر ایک بات کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے ہمیں اس وقت ان کی وہ بات سمجھ نہیں آتی تھی ہم سمجھتے تھے یہ روحانیت میں اتنے یکتا کب ہوئے کہ پیشگوئیاں کرنے لگ گئے ہمیں کیا پتہ تھا کہ وہ اپنے اس خفیہ ایجنڈے کی بات کررہے ہوتے تھے جس پر اب عمل درآمد ہورہا ہے، پاکستان کا موجودہ بحران جس میں ہم اسلام آباد میں بسنے والے گزشتہ سولہ دن سے براہ راست نشانے پر ہیں اس کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہر کوئی پوچھتا پھرتا ہے ’’خبرناک‘‘ والے نصیر بھائی کی طرح ہم اسکرپٹ کا سارا کچھ بتانے سے پہلے ان کیفیتوں کا احوال قارئین سے شیئر کریں گے جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دیکھنے کو ملتی ہیں، ہر چوبیس گھنٹے بعد اعلان ہوتا ہے کہ اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں، صبح ہوتی ہے تو شام کی منادی کردی جاتی ہے اور شام کو صبح کا اعلان ہوجاتا ہے، اسلام آباد کی یہ کہانی درد ناک بھی ہے اور ہیجان پرور بھی۔ اس میں دھمالیں اور قوالیاں بھی ہیں اور ڈسکو دیوانے بھی۔
نئے پاکستان کے دونوں بانی مولانا طاہرالقادری اور عمران خان ہم خیال بھی ہیں اور مارچ فیلو بھی دونوں کا ایجنڈا ایک تھا مقصد، چاند اور تارا ایک مگر اب پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک شہید ہونا چاہتا ہے اور دوسرا شادی کرنا چاہتا ہے،شہید ہونے والے کے پاس کفن ایک ہے اور شہادت کا مرتبہ پانے والے ہزاروں۔ ڈاکٹر طاہر القادری قائداعظم کے پاکستان کی اسمبلی کو شہیدوں کا قبرستان بنانا چاہتے ہیں ان کا فرمانا ہے کہ کفن ایک ہے اس میں وہ خود دفن ہونا چاہتے ہیں یا میاں نوازشریف کی حکومت کو درگور کریں گے۔ اب ایک کفن کی بات ہورہی ہے اور ماضی میں ایک قبر کی بات ہوا کرتی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ قتل چل رہا تھا تو یہی فکر دامن گیر تھی کہ اگر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑ دیا تو پھر بھٹو ضیاء کو نہیں چھوڑے گا پھر دونوں نہ رہے تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک کی شناخت مشکل کردی گئی تھی اور دوسرے کی موت عبرت ناک ایک عرصے سے بلی چوہے کا یہ کھیل جاری ہے تازہ ترین حالات کے مطابق علامہ طاہرالقادری شہادت کی خواہش کے بعد کفن دکھاکے نوازشریف کے استعفے سے چند قدم آگے بڑھ کے ان کی پھانسی تک آکے ٹھہر گئے ہیں۔ اس سے آگے بقول مولانا کے ’’دمادم مست قلندر ہوگا‘‘ بلکہ عمران خان کے ترکش میں آخری تیر پاکستان الیکشن کمیشن کے سابقہ ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان تھا جس کا وار خطا چلا گیا، عمران خان کے کچھ اور دائو پیچ بھی ناکام ہوچکے ہیں جن میں’ہنڈی کے ذریعے رقم منگوانے اور بینکوں سے پیسہ نکلوانے کی باتیں‘ وہ تو پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کے بارے میں اپنے نازیبا الفاظ واپس لے کر پھر اسی ٹریک پر چل نکلے ہیں، عمران خان کی شخصیت میں ٹھہرائو ہے نہ سنجیدگی وہ صبح جنگ اور جیو کے خلاف بولتے ہیں، دوپہر کو آئی جی پولیس اسلام آباد کے اور شام وزیراعظم پاکستان کے خلاف خرافات کہہ رہے ہوتے ہیں، ہر کوئی پوچھتا پھرتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ پنجاب کی لڑائی ہے جو اسلام آباد میں لڑی جارہی ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے دراصل یہ پاکستان کی جنگ ہے جو پنجاب میں لڑی جارہی ہے۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ خلاف عثمانیہ کا خاتمہ بھی سازش کا شاخسانہ تھا جس طرح مولانا طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیا جائے دراصل وہ پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کی شناخت ختم کرنا چاہتے ہیں۔ 1342ء میں قائم ہونے والی سلطنت عثمانیہ جو گیلی پولی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اسے 1924ء میں ختم کیا گیا تو وہی جو اس سلطنت کے صوبے تھے انہیں ملکوں کا درجہ دے دیا گیا تھا جن میں عراق، شام، مصر، سعودی عرب، ہنگری اور ترکی شامل تھے اسی طرح جب ہسپانیہ میں 800سالہ مسلمانوں کا طویل اقتدار ختم کیا گیا تھا اس کے سب سے بڑے صوبے قرطبہ میں سب سے پہلے نفرتوں کا بیج بویا گیا تھا قرطبہ کی اندرونی لڑائیوں اور باہمی نااتفاقیوں سے دشمن نے فائدہ اٹھایا پہلے قرطبہ پر قبضہ کیا اور پھر سارے مسلم ہسپانیہ (اندلس) پر قابض ہوکر مسلم ریاست کا نام و نشان مٹادیا تھا، پنجاب میں وہی جنگ لڑی جارہی ہے پہلے پہل میاں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کی باتیں ہوتی رہیں پھر نظام کو خطرہ ہوا اور اب ریاست خطرے میں ہے پنجاب کو کمزور کرنا پاکستان کو کمزور کرنا ہے یہ کہانی بڑی سوچ بچار کے بعد لکھی گئی ہے اور اسے ایک ایسے شخص نے لکھا جسے لکھنا نہیں آتا وہ اپنا رزق گارے چونے کے کاروبار سے جوڑے ہوئے ہے کہانی کی نوک پلک عالی مرتبت نے سنواری ہے پروف دانشور ایکس مینوں نے پڑھا ہے، اس کہانی کے پروڈیوسر چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی ہیں ہدایات شیخ رشید احمد کی ہیں، یہ اسکرپٹ چونکہ کمپیوٹر پر کمپوز نہیں ہوا کاتب سے کتابت کرائی گئی ہے اور اخبار کی دنیا سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ کاتب اکثر اوقات اپنی بصیرت کے مطابق کتابت کرتے وقت مسودے میں ’’اصلاحی‘‘ تبدیلیاں کرتا رہتا ہے وہ ’’ماضی شکیہ‘‘ کو ’’ماسی شکیلہ‘‘ بھی کردے تو بضد رہتا ہے کہ اس نے جو لکھا وہ صحیح ہے۔
اسلام آباد کے اس دھرنا اسکرپٹ میں جو کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں وہ کاتب کی کارستانی ہے، مکالمے جاندار ہیں لوکیشن آئیڈیل ہے، اداکاری لاجواب ہے، بس وہ دیہاتی یاد آرہا ہے جو فلم دیکھ کے گائوں پہنچا تو کسی نے پوچھا فلم کیسی تھی تو اس نے بتایا کہ فلم تو اچھی ہے کہانی بھی جاندار ہے بس ’’شٹوری‘‘ تھوڑی کمزور ہے۔
کالم کی آخری سطریں لکھنے تک عمران خان سپریم کورٹ سے اپنا معافی نامہ واپس لے چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو ڈپٹی پرائم منسٹر کی آفر ’’ن‘‘ لیگ کے چوہدری جعفر اقبال کرچکے ہیں، ہر روز کی طرح مذاکرات کا آخری رائونڈ جاری ہے، وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے جمہوریت کی بقاء اور ترقی کا سفر جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے دھرنا بازوں کی طرف سے ان کے استعفے کے مطالبے کو ایک بار پھر مسترد کرچکے اور ہر قیمت پر شہادت کے خریدار مولانا طاہرالقادری کفن خرید چکے، قبر تیار کرواچکے باوجود اس کے وہ شہید نہیں ہونگے کیونکہ شہادت قیمت سے نہیں قسمت سے ملا کرتی ہے۔
تازہ ترین