• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قطع نظر اس کے کہ کئی ہفتوں سے جاری سیاسی بحران کا کیانتیجہ برآمد ہو تا ہے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ معاشی سطح پر ملک کئی سال پیچھے جا چکا ہے جبکہ اس کے دوسرے ادارے بھی کئی پہلووں سے منفی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور اس کے اعتماد کو بحال کرنے میں کئی سال درکار ہوں گے۔
پاکستان میں سیاسی بحران کے نتیجے میں عالمی اداروں کا رویہ منفی ہوتا جا رہا ہے۔بہت سے عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کی گفتگو سے یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا رخ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نئے پروجیکٹوں کی تو بات ہی چھوڑئیے ، جاری منصوبوں سے بھی مالیاتی ادارے ہاتھ کھینچنا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا کے تمام مالی ادارے غیر یقینی صورت حال میں کسی نئی سرمایہ کاری سے گریز پا ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کئی شعبوں مثلاً اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکلنا شروع ہو چکاہے۔ اس لئے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے کئی سو بلین روپوں کا سرمایہ نکالا جا چکا ہے۔ غیر یقینی سیاسی ماحول میں درآمدات اور برآمدات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پچھلے چند مہینوں میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت ہی مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس عرصے میں ورلڈ بینک نے داسو ہائیڈرو پاورپروجیکٹ کے لئے ساڑھے چھ سو بلین ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی منظوری دی تھی۔ اس پروجیکٹ کے معاہدے پر چند روز پیشتر ہی وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستان حکومت اور ورلڈ بینک نے دستخط کئے تھے۔ اب داسو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے جن عملی اقدامات کی ضرورت ہے وہ غیر یقینی سیاسی صورت حال میں ناممکن ہیں۔ ان حالات میں نہ تو ماہرین پاکستان جانے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی سرمایہ کار۔ پاکستان میں حالیہ بحران سے پہلے ہی دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے پاکستان داسو پراجیکٹ کے لئے سرمایہ کاروں کا اجلاس پاکستان سے باہر (دبئی وغیرہ) میں بلانے کے لئے مجبور تھا۔ اب موجودہ حالات میں شایداس عمل کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا جائے۔ داسو پروجیکٹ کے علاوہ بھی ورلڈ بینک نے دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ اب موجودہ حالات میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ اسی طرح سے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ نے بھی پاکستان کے لئے مشروط قرضہ جات کی منظوری دے رکھی ہے۔ پاکستان اس سیاسی بحران میں داخل ہونے سے پیشتر ہی ان شرائط کو پورا نہیں کر پا رہا تھا۔ اب جب ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی سول نافرمانی اور ٹیکسوں کی عدم ادائیگی پر عوام کو اکسا رہی ہے تو پاکستان کس طرح آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر سکتا ہے؟پاکستان کی موجودہ حکومت نے کامیابی سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر چودہ بلین ڈالر تک پہنچا دئیے تھے۔ اس سے موڈی سمیت دنیا کی کریڈٹ ایجنسیوں نے پاکستان کی مثبت ریٹنگ میں اضافہ کر دیا تھا۔ اب اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے قرضے کی مزید قسطیں حاصل کرنے سے محروم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ ذخائر چند مہینوں میں بہت ہی نچلی سطح پر آجائیں گے جس کے بعد ملک دوبارہ ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان کسی معجزاتی انداز میں موجودہ سیاسی بحران سے نکل بھی جاتا ہے تو پھر بھی اسے اپنی پرانی ساکھ بحال کرنے میں بہت عرصہ درکار ہو گا۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران بہت گہرا ہے۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف کسی طرح سے اپنی کرسی پر براجمان رہتے ہیں تو اس پر سپریم کورٹ کے عدالتی کمیشن کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ اگر عدالتی کمیشن نے تین مہینوں میں انتخابی دھاندلی کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے تو اس دوران وزیراعظم پر عالمی اعتماد کی بہت زیادہ کمی ہوگی۔ کوئی بھی بیرونی ادارہ یا حکومت انکے ساتھ کیسے معاہدے کرنے پر تیار ہوگی جبکہ ان کا اپنا ہی مستقبل مخدوش ہو۔ اور اگر موجودہ حکومت کو کسی غیر جمہوری انداز میں برخاست کیا جاتا ہے تو نئی حکومت کو پاؤں جمانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ بحران کے سیاسی نتائج بھی انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف اور مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کی بنیادیں زیادہ تر وسطی پنجاب میں ہیں ۔ باقی تین صوبوں میں (سوائے کراچی کے) موجودہ حکومت کے خلاف کسی طرح کی تحریک موجود نہیں ہے۔ اب اگر وسطی پنجاب کے مخصوص حلقے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ تاثر جائز طور پر گہرا ہوگا کہ ملک پر حکمرانی صرف پنجاب کی ہے۔ یہ تاثر ملک کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ہوگا۔
سیاسی پہلو سے دیکھا جائے تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت انتہائی کمزور اور کھوکھلی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جمہوریت نہیں آئی صرف انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ اب اگر ایک اکثریت کے ساتھ بننے والی حکومت بھی مستحکم ماحول پیدا نہیں کر سکتی تو جمہوری عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اگر واضح اکثریت کے ساتھ بننے والے وزیر اعظم کو جلسوں جلوسوں کے ذریعے استعفی دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو یہ مستقل روایت بن سکتی ہے: چند ہزار لوگ لشکر کشی کر کے کسی بھی حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کی رٹ بہت مدت سے تحلیل ہو رہی تھی۔ متعدد مواقع پر ہجوم نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اقلیتوں کے گھروں اور کالونیوں پر حملے کئے۔ تھانوں اور دفتروں پر ہجوم کے حملے بھی تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ماضی میں ہجوم کو کنٹرول کرنے اور مجرموں کو سزائیں دلوانے سے سراسر چشم پوشی کی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اب ہجوم کا رخ جس جانب بھی ہو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہجوم کی حکومت اس لئے بھی خطرناک ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بین الاقوامی حلقوں کو اس پر شدید تشویش ہے۔موجودہ سیاسی بحران کا جو بھی نتیجہ نکلے یہ واضح ہے کہ پاکستان کی دنیا میں ساکھ کافی حدتک مجروح ہو چکی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اسے پاکستان کے اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لئے طویل عرصہ درکار ہوگا۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات مزید خراب ہوں گے، لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگا اور کاروباروں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ موجودہ حکومت قائم رہے یا کوئی نیا بندوبست وجود میں آجائے حالات میں بہتری کے امکانات وقتی طور پر معدوم ہو چکے ہیں۔
تازہ ترین