• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس گھر میں دونشان حیدر اور ایک ستارۂ جرأت ہو اس سپہ سالار سے کسی کمزور فیصلے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور نہ ہی یہ گمان کرنا چاہئے کہ وہ کبھی دو رنگی کا ارتکاب کریں گے۔ زندگی میں کسی بڑے منصب پر پہنچ جانا کامرانی ضرور ہے مگر اس مقام، مرتبہ اور اعزاز کو برقرار رکھنا اصل کامیابی ہے۔ مجھ سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ افواج پاکستان ’’دھرنا بازوں‘‘ کے پیچھے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ نوجوانوں نے کہا سن رسیدہ نے کہا مجھے اپنے گھر میں بچّوں نے کہا مگر میں نہ مانا۔ میرا ان کو یہی جواب تھا کہ ستمبر 1965ء کا ہیرو نشان حیدر عزیز بھٹی شہید موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کزن تھے۔ 1965ء ہی کی پاک بھارت جنگ میں شبیر شریف نے ستارۂ جرأت حاصل کیا تھا، وہ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔ پھر 1971ء کی جنگ میں اسی شبیر شریف نے وطن پر جان نثار کر کے نشان حیدر کا اعزاز پایا تھا۔ 29؍نومبر 2013ء کو جب جنرل راحیل شریف نے پاکستان آرمی کے پندرہویں چیف کا اعزاز پایا تھا تو میں نے اپنے 4؍دسمبر 2013ء والے کالم میں لکھا تھا کہ جنرل راحیل شریف کا آرمی چیف ہونا کوئی بڑی خبر نہیں بلکہ افواج پاکستان کا یہ اعزاز ہے کہ اس کا سربراہ راحیل شریف ہے۔
نشان حیدر دراصل اتنا بڑا منصب ہے کہ سیاسی اقتدار اس کے سامنے بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب افواج پاکستان کو متنازع بنانے کے لئے اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنا بازوں، طاہرالقادری اور عمران خان نے اپنی پشت پر فوج کی موجودگی کا تاثّر دیا تو افواج پاکستان کے ترجمان ISPR نے فوری پریس ریلیز میں کہا کہ فوج عمران خان یا طاہرالقادری کے پیچھے نہیں ہے۔ سچّی بات ہے اس ایک مختصر سے جملے سے اتنی تقویت ملی، الفاظ میں اظہار اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔ طمانیت کا باعث میرا وہ گمان تھا جو میں نشان حیدر کے حامل گھرانے کے بارے میں رکھتا تھا۔ میرے اطمینان کی ایک وجہ جنرل راحیل شریف کی والدہ صاحبہ کا وہ فرمان تھا جس میں انہوں نے جیو سے کہا تھا کہ ’’ہم نے اپنا سارا کچھ وطن کے دفاع پر لگا دیا ہے۔‘‘ سچّی بات ہے جن لوگوں کو وطن پر قربان ہونے کی عادت پڑ جائے وہ اس وطن میں پلنے والی سازشوں میں کبھی شریک نہیں ہوا کرتے پھر کیسے یقین کر لیا جاتا کہ 29؍اور 30؍اگست کی درمیانی رات وطن عزیز پاکستان کی پارلیمنٹ پر جن بلوائیوں نے حملہ کیا تھا ان کی پشت پر فوج تھی، ایسا خیال کرنا بھی گناہ ہے۔
گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں آزادی اور انقلاب کے نام پر کھیلا جانے والا ڈراما ناکام ہو چکا۔ طاہر القادری کا پارلیمنٹ کو جلا کر بھسم کرنے کا وہ خواب جس پر انہوں نے 23؍جون 2014ء کو عمل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر بر وقت اطلاع ہو جانے پر ان کے جہاز کو اسلام آباد سے لاہور لے جایا گیا تھا، اسی شام منہاج القرآن ہیڈ کوارٹر ماڈل ٹائون میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا تھا کہ ’’حکومت کا تختہ جلد الٹے گا۔ میرا جہاز ہائی جیک کیا گیا، انتقام لوں گا‘‘ اور پھر اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا قادری گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوا مگر افواج پاکستان نے آئین کی دفعہ 245 کی روشنی میں اس کا وہ وار ناکام بنا دیا۔ وہ یکم ستمبر کو پی ٹی وی پر قبضہ کرکے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ’’انقلابیوں‘‘ کو نئے پاکستان کی مبارکباد دینے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے مگر وہاں بھی فوج نے بروقت کارروائی کر کے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیئے۔ 2؍ستمبر کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس نے دھرنا بازوں کی رہی سہی ’’پھونک‘‘ بھی نکال دی۔ کہا جاتا ہے کہ اتنے دنوں میں ایک گملا نہیں ٹوٹا حالانکہ پارلیمنٹ کا سارا جنگلا توڑ ڈالا۔ پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہائوس پر حملہ سے پہلے طاہر القادری نے جس اپنے عقیدت مند سے ڈی چوک میں ایک قبر کھدوائی تھی جس میں میاں نواز شریف کی حکومت کو دفن کرنا مقصود تھا، جس رات پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اسی بھگدڑ میں ایک کھائی میں گر کر وہ شخص زندگی کی بازی ہار گیا جس نے وہ قبر کھودی تھی۔ طاہرالقادری اور عمران خان تو کہا کرتے تھے کہ اگلے چوبیس گھنٹے یا اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں مگر ایک، ایک کر کے وہ سارے مرحلے گزر چکے۔ ایمپائر نے انگلی تو نہ اٹھائی اور کافی حد تک تحریک انصاف کے دھرنا باز اٹھ کر گھروں کو چلے گئے اور اب شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ شروع ہو چکا ہے جس کا آج تیسرا دن ہے اور ایمپائر اگلے دو روز میں اپنے سفید کوٹ سے آئوٹ کا اشارہ دینے کیلئے ہاتھ نکالنے ہی والا ہے۔ عجیب علامتی باتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے کہا ہے کہ ایک ہفتہ دے رہا ہوں، ممبران پارلیمنٹ اپنا رویّہ درست کریں وگرنہ ایم کیوایم قومی اسمبلی سے استعفےٰ دے دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات تو عوامی تحریک اور تحریک انصاف والوں سے کہی جاتی تو قرین انصاف ہوتی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی پاکستان کی پارلیمان کو مشکل میں گھرا دیکھ کر اپنی چھٹیاں منسوخ کر کے چیف جسٹس جناب ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدامات کی سماعت بھی شروع کر دی ہے۔ آج کی سماعت میں بہت حد تک سیاسی ایوانوں پر منڈلاتے سازشوں کے بادل چھٹ جائیں گے۔ تازہ ترین حالات کی روشنی میں تحریک انصاف کے وہ ممبران جو اسپیکر قومی اسمبلی کو استعفے دے چکے تھے اور قومی اسمبلی کو جعلی بھی قرار دے چکے تھے۔ گزشتہ بدھ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وہ سارے ممبران شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں آئے۔ شاہ محمود قریشی نے لانگ مارچ اور دھرنا کے بارے میں وضاحتیں کیں، مذاکرات کرنے کی رضامندی ظاہر کی، سیاسی فیصلے سیاسی انداز میں حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا حالانکہ طاہرالقادری، عمران خان کو شاہ محمود قریشی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ بھیجنے پر زور دیتے رہے لیکن عمران خان نے طاہر القادری کی وہ خواہش اسی طرح سنی ان سنی کر دی جس طرح عمران خان نے جب کہا تھا کہ قادری صاحب وعدہ کریں کہ آپ آخری دم تک تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے مگر قادری نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اسلام آباد کی فضاء خوشگوار ہوتی جا رہی ہے، کافی حد تک اسکول کھل چکے ہیں۔ طاہرالقادری بھی اپنے عقیدت مندوں کو کہہ چکے ہیں کہ جس نے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ وہ اکثر اپنے سادہ لوح مریدوں کو رسم شبیری کا حوالہ دے کر کہتے رہے ہیں کہ میں نے چراغ بجھا دیا ہے، جو جانا چاہتا ہے چلا جائے، مگر اب وہ خود بجھتے جا رہے ہیں۔ ایک ایک کر کے وہ سارے دائو گنوا بیٹھے ہیں اسی لئے انہوں نے کہا ہے کہ میری خوشی اسی میں ہے کہ آپ لوگ چلے جائیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ عمران خان جو منتخب وزیراعظم کو پارلیمنٹ سے گھسیٹ کر باہر نکالنے آئے تھے وہ اپنے ہی پارٹی صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو یک جنبش قلم بلکہ کلمہ نکال چکے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے بروقت سازش کو بے نقاب کر کے پاکستان کی ڈولتی ہوئی جمہوریت کو دوام بخشا ہے۔ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے روز ہر ممبر اسمبلی نے اپنے اپنے انداز میں دھرنا بازوں پر تنقید کی تھی۔ چوہدری نثار نے انہیں گھس بیٹھیا کہا، کسی نے باغی اور کوئی انہیں جمہوریت دشمن کہتا رہا مگر جب وہ لوگ اپنے مقاصد میں ناکام ہو چکیں تو انہیں واپسی کا باعزت راستہ دیا جائے، انہیں دلاسا دے کر بھیجا جائے۔ آخر ہیں تو وہ اس پاکستان کا حصّہ، بس راستے سے بھٹک گئے تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں سلیم کوثر نے کہا تھا کہ:
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہ ہی دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
تازہ ترین