لندن (مرتضیٰ علی شاہ) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر برطانوی سرزمین سے اشتعال انگیز خطاب کیا جس کے نتیجے میں کراچی میں میڈیا ہائوسز پر پرتشدد حملے کیے گئے اور ساتھ ہی ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔ الطاف حسین کے بیان پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے اسے اشتعال انگیز اور ملکی سلامتی کیخلاف قرار دیا ہے ۔ اپنے ایجویئر کے گھر سے فون پر خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کراچی میں جیو ٹی وی نیٹ ورک، اے آر وائی اور سما نیوز کے میڈیا ہائوسز پر حملے کا حکم دیا اور چند ہی سیکنڈوں بعد ان چینلوں کی گاڑیوں پر حملہ کیاگیا اور مسلح افراد ان میں سے ایک چینل کے دفتر پر چڑھ دوڑے۔ پیر کے روز ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے کیے گئے خطاب ان کے گزشتہ خطبات کے ساتھ ہم آہنگ تھے جس میں انہوں نے کھل کر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کو دھمکیاں دیں جن میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور آئی ایس آئی چیف رضوان اختر شامل ہیں۔ اپنے تازہ ترین خطاب میں الطاف حسین نے پاکستان توڑنے کی بات کی اور کہا کہ 180؍ ملین افراد کا ملک باقی نہیں رہے گا۔ اپنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے سوال کیا کہ انہوں نے جیو نیوز، سما اور اے آر وائی پر آپ کے بھائی کی تصویر نہ دکھانے اور مناسب کوریج نہ دینے کی وجہ سے حملہ کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ میڈیا کیخلاف فوری ایکشن لیں جس کے بعد میڈیا ہائوس پر نقاب پوش مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ یہ غیر منصفانہ بات ہے کہ عدالتی احکامات کی وجہ سے ٹی وی چینلوں پر ان کی تصویر نہیں دکھائی جا رہی، ایسا کرنے پر آپ لوگوں نے ان چینلوں کو توڑ کیوں نہیں دیا۔ بتائیں کہ آپ نے ان چینلوں کو کیوں نہیں توڑا؟ کراچی میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے قائد کی تصویر نہ دکھائی جائے؟ انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ میڈیا چینلوں کو سبق سکھایا جائے، انہیں وہ سزا دی جائے کہ یہ لوگ دوبارہ ایسی حرکت نہ کریں۔ جب الطاف حسین نے کارکنوں سے کہا کہ آپ نے اُن چینلوں کیخلاف کچھ کیوں نہیں کیا جو مجھے نہیں دکھاتے تو ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ہم ان کے کیمرے توڑ سکتے ہیں، انہیں توڑنا ہمارا حق ہے، اس کے بعد ایک اور کارکن نے وہی الفاظ دہرائے اور الطاف حسین نے کہا ’’بسم اللہ‘‘ اور اس کے بعد بحران اور تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کے بعد الطاف حسین نے کارکنوں سے پوچھا کہ کیا وہ جیو ٹی وی، اے آر وائی اور سما ٹی وی جا رہے ہیں تو کارکنوں نے اثبات میں جواب دیا اور تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کارکنوں نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے قریب کھڑی چینلوں کی وینوں پر حملہ کردیا، گاڑیاں جلائیں، پتھرائو کیا، شہریوں پر حملے کیے اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ الطاف حسین کے خطاب کے دوران کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ضرورت پیش آئی تو وزیراعظم نواز شریف کو گھسیٹ کر لائیں گے۔ الطاف حسین نے کہا کہ اگر انہیں اسرائیلی ہتھیار مل گئے تو وہ کراچی میں بلال اکبر کی لاش کو لٹکا دیں گے، ڈی جی رینجرز کا ٹرائل کریں گے اور تین مہینے تک ان کی لاش لٹکا کر رکھیں گے تاکہ لاش سڑ جائے۔ جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان الطاف حسین کا معاملہ برطانوی حکومت کے روبرو اٹھائے گی۔ اس نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان نے کہا کہ ادارہ کراچی میں میڈیا پر ہونے والے حملے سے آگاہ ہے۔ یہ کراچی میں قانون کے نفاذ کا معاملہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے وابستہ شخص کے پاکستان میں نشر ہونے والے خطاب کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ انکوائری کے حوالے سے ہم کسی طرح کا بحث و مباحثہ نہیں کر سکتے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے برطانیہ کے دفتر برائے خارجہ اور دولت مشترکہ امور کے ترجمان نے کہا کہ نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے کے حوالے سے برطانیہ کے قوانین واضح ہیں۔ کسی بھی طرح کے مجرمانہ الزامات کی تحقیقات کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ برطانیہ میں اگر کسی کے پاس ایسی معلومات ہیں تو وہ پولیس کو فراہم کرے۔ پولیس ان الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیتی ہے اور شکایت پر مناسب رد عمل کا اظہار کرے گی۔ ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے موقف حاصل کرنے کیلئے متعدد کوششیں کی گئیں لیکن الطاف حسین کے خطاب کے بعد کراچی کی صورتحال پر تبصرے کیلئے کوئی دستیاب نہیں تھا۔ قانونی رائے معلوم کرنے کیلئے جب اس نمائندے نے رابطہ کیا تو دو وکلاء کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے میڈیا ہائوسز اور پاکستان کی قانون نافذ کرنے والے ایجنسیوں کے ارکان کیخلاف حملے کرنے کی ہدایت دے کر واضح طور پر برطانیہ کے نفرت پھیلانے اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس الطاف حسین کیخلاف مضبوط کیس ہے، اگر حکومت الطاف حسین کے خطاب کو سنجیدگی سے لے اور اسے ان کے دیگر 6؍ گزشتہ خطبات کے ساتھ ملا کر پیش کرے تو ثابت ہو سکتا ہے کہ برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسکاٹ لینڈ یارڈ الطاف حسین کیخلاف کوئی کارروائی نہ کرے تو پاکستان اپنے برطانیہ میں موجود ہائی کمیشن کے ذریعے اسکاٹ لینڈ یارڈ پر برطانوی عدالتوں میں مقدمہ قائم کر سکتا ہے۔ الطاف حسین نے متعدد مرتبہ اپنے خطبات میں برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کی لیکن پاکستانی حکومت نے موثر انداز سے کوئی سوالات اٹھائے یا پھر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے کارروائی نہ کرکے معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور تین مقدمات (عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ انوسٹی گیشن اور نفرت انگیز خطاب کی انکوائری) پر لیت و لال سے کام لیا۔ 11؍ مارچ 2015ء کو الطاف حسین نے پاکستان رینجرز کو دھمکی دی جنہوں نے ایم کیو ایم کے دفاتر پر کراچی میں چھاپہ مارا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افسران نے میرے گھر پر نائن زیرو پر چھاپہ مارا وہ بہادر بن رہے ہیں لیکن وہ اصل میں ڈرے ہوئے تھے حالانکہ وہ رینجرز کے افسران تھے۔ یہ لوگ زمان ماضی بن چکے ہیں۔ یہ لوگ ہیں لیکن انشاء اللہ یہ لوگ تھے ہوجائیں گے۔ الطاف حسین لندن میں مقیم برطانوی شہری ہیں۔ انہوں نے 11؍ مارچ 2015 کو پرائیوٹ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1992 میں ہم اکیلے تھے، تنہا تھے، ہم نے اکیلے لڑائی کی، خدا پر بھروسہ رکھا۔ آصف نواز مارا گیا اور جن لوگوں نے آپریشن کیا وہ بھی مارے گئے۔ 30؍ اپریل 2015ء کو الطاف حسین نے کراچی کے نوجوانوں سے اپنا جیب خرچ بچانے اور ہتھیار خریدنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کمانڈو ٹریننگ کریں اور سیکھیں کہ ڈیفنس کلفٹن کے علاقوں میں فائرنگ کیسے کرنا ہے۔ الطاف حسین نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ دریائے سندھ میں کس کا خون بہے گا۔ انہوں نے بھارتی حکام سے ایم کیو ایم کی مدد کی اپیل بھی کی۔ 12؍ جولائی 2015ء کو الطاف حسین نے کہا کہ 1992؍ کے آپریشن میں حصہ لینے والے مر گئے، اور موجودہ آپریشن کرنے والے بھی مر جائیں گے۔ ایک ہفتہ بعد جولائی 2015ء میں الطاف حسین نے دھمکی دی کہ کراچی کی سڑکوں پر جنگ ہوگی اور پاکستان صومالیہ بن جائے گا۔ 16؍ جولائی کو الطاف حسین نے کارکنوں سے خطاب میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سندھ رینجرز کو دھمکی دی اور کہا کہ رضوان اختر اور بلال اکبر کی موت کے بعد ان کی لاشیں قبر سے نکال کر سڑکوں پر گھسیٹی جائیں گی۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا پاکستانی حکومت یہ معاملہ برطانوی حکومت اور برطانوی پولیس کے ساتھ اٹھائے گی۔ 14؍ جولائی 2015ء کو الطاف حسین نے کراچی میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی سندھ رینجرز کو دھمکی دی۔ 5؍ اکتوبر 2015ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر رینجرز پر کراچی آپریشن کی وجہ سے تنقید کی اور کہا کہ وہ دن دور نہیں جب ہم ان کے سر کاٹ کر سڑکوں پر فٹ بال کی طرح کھیلیں گے۔ اس نمائندے سے بات چیت کرتے والے وکلاء کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے خلاف قانونی اور فوجداری نوعیت کا مضبوط کیس بن چکا ہے اور اگر برطانوی حکومت تعاون نہ کرے تو پاکستان نجی طور پر بھی کارروائی کر سکتا ہے۔