• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم پاکستان کے 40 ویں یوم دفاع کے موقع پر 6 ستمبر کو لکھا جا رہا ہے ۔39 سال پہلے بھارت نے پاکستان پر بلا جواز حملہ کر دیا تھا ۔ پاکستانی مسلح افواج نے اس حملے کا بھرپور جواب دیا تھا اور بڑی بہادری کے ساتھ اپنے وطن کا دفاع کیا تھا ۔ اس وقت پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی تھی ۔ پورا ملک قومی نغموں اور ترانوں سے گونج رہا تھا ۔ لوگوں میں زبردست جوش و خروش تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستانی قوم نہ صرف متحد ہے بلکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط ہے۔ لوگ پاک بھارت سرحدوں پر جا کر وطن کے محافظ اپنے بہادر بیٹوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے ۔ ہر کوئی اپنی قیمتی متاع حکومت کے حوالے کر رہا تھا تاکہ ہنگامی حالات میں حکومت اور فوج کو کوئی مالی مشکلات نہ ہوں ۔ 1965 ء کا یہ جذبہ تھا ، جس کی بنیاد پر ہم ایک قوم ہونے کا دعویٰ کر سکتے تھے ۔ آج پھر پاکستان کی مسلح افواج کو 1965ء سے زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا ہے وہ اپنی ہی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے اور ان دہشت گردوں کو ان تمام طاقتوں کی حمایت حاصل ہے، جو پاکستان دشمن ہیں لیکن بدقسمتی سے 1965ء والا جذبہ دیکھنے میں نہیں آرہا ۔ قوم اس طرح فوج کا ساتھ نہیں دے رہی جس طرح اس نے 1965 ء میں دیا تھا حالانکہ آج پاکستان کی بری فوج کی کمان جنرل راحیل شریف کے پاس ہے ، جن کے خاندان کے دو افراد کو نشان حیدر مل چکا ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں ایک ان کے بھائی میجر شبیر شریف شہید اور دوسرے ان کے انکل راجہ عزیز بھٹی شہید ہیں ۔ میجر شبیرشریف شہید شاید پاک فوج کے واحد افسر ہیں جنہیں بہادری پر دو بڑے اعزازات ستارہ جرات اور نشان حیدر سے نوازا گیا ۔ 1965 ء میں پاکستان کی افواج ملک کے دفاع کی جنگ لڑ رہی تھیں اور آج وہ ہمارے مستقبل ، ہماری آنے والی نسلوں اور دنیا کے امن کے لئے جنگ لڑ رہی ہیں ۔ پوری قوم کو1965 ء سے بھی زیادہ آگے بڑھ کر اپنی افواج کا ساتھ دینا چاہئے ۔ آج یوم دفاع کے موقع پر پاک فوج کو سلام۔
اب ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں جو پچھلے چند ہفتوں سے ہر لمحہ بدلتارہاہے۔ یہ بات بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے اسلام آباد میں دھرنوں کے باعث پیدا ہونے والے موجودہ سیاسی بحران کے دوران فوج کو متنازع بنانے کی کوشش بھی کی گئی ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس بحران کی وجہ سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ اس حوالے سے ہماری عسکری قیادت کا کردار قابل ستائش ہے۔ کیونکہ تمام باتوں کے باوجود وہ اپنے قومی فرائض میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بات بھی کہوں گا کہ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت خصوصاً سابق صدر زرداری نے بھی معاملات کو سلجھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے جمہوریت کو بچا لیا ہے تو غلط نہیں ہو گا ۔ ایک قومی سیاسی جماعت کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کی اہمیت اس بحران میں پھر اجاگر ہوئی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور خصوصاً اس کے شریک چیئرمین کو آگے چل کر بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے کیونکہ اس بحران نے یہ محسوس کرادیا ہے کہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار نہیں رہ سکتا لوگ خاص طور پر نوجوان تبدیلی چاہتے ہیں ۔ پاکستانی قوم بھی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں اور نئے نئے بدلتے ہوئی سیاسی اور معاشی محرکات سے آگاہ ہے تبدیلی کے ناگزیر عمل کو مدبرانہ سیاسی قیادت ہی پر امن طریقے سے تکمیل یا انجام تک پہنچا سکتی ہے ۔ اس بحران میں قومی سیاست کے بعض ایسے پہلو بھی سامنے آئے ہیں ، جن کا ادراک شاید عام حالات میں ہم نہ کر سکتے۔ ایک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ گو سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ‘ حکومت نا اہلی اورکرپشن ‘ اقربا پروری میں شامل ہے۔ اس کےباوجود ملک کی تمام سیاسی قوتیںجمہوریت ، آئین اور پارلیمنٹ کے تحفظ پر متفق ہیں ۔ اس سے پوری دنیا کو ایک پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی منزل کا تعین کررہی ہے ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس متفقہ سوچ کا اظہار کیا گیا لیکن بد قسمتی سے حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار علی خان اور اپوزیشن کی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن کے مابین جھگڑے کی وجہ سے اتحاد اور یکجہتی کے تاثر کو نقصان پہنچا ۔آئین اور جمہوری نظام کے دفاع کے لئے بعض سیاست دانوں کی تقریروں سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ پاکستان میں تجربہ کار اور مدبر سیاسی قیادت موجود ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ ، چوہدری اعتزاز احسن ، میاں رضا ربانی ، نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو اور بعض دیگر ارکان پارلیمنٹ کی تقاریر معرکتہ الآراء تھیں ۔ ہماری قومی سیاست کا یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ اس میں بحران کو حل کرنے کیلئے سیاسی راستہ نکالنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ سیاست دانوں نے مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس مرحلے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ‘متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا کردار بہت اہم ہے ۔ دونوں بڑے جمہوریت پسند اور مصالحت کار کے طور پر سامنے آئے ۔ دونوں سب کو ساتھ لے کر چلتے رہے اور اہم سیاستدان کی حیثیت سے قومی افق پر ابھرے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ اور رحمٰن ملک اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے کردار کی تعریف کرنا بھی یہاںضروری ہے۔ ایک اورپہلو بھی اس بحران میں اجاگرہواہے۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے زیادہ ترارکان پارلیمنٹ کا معیاروہ نہیں ہے ،جو ہونا چاہئے۔ ایک پہلو ایسا بھی ہے،جس کے بارے میں ہم جانتے تو پہلے سے ہیں لیکن اس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس بحران میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکی ہے اور حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ انتہائی معذرت کے ساتھ یہ حقیقت بھی بیان کروں گا کہ محترم وزیراعظم میاں محمد نواز شریف میں اسٹیٹسمین شپ کا فقدان نظرآیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی اور گورننس کے بارے میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کا بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا ۔ کرپشن ، اقرباء پروری اور لوٹ مار کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اہم سرکاری عہدوں پر اپنے قریبی ،وفادار اورمخصوص علاقے کے افسروں کو تعینات کیا جا رہا ہے ۔ ایسے افسر نہ ملنے پر بہت ساری جگہیں خالی ہیں اور50 کے قریب اداروں کو ایڈہاک پر چلایا جا رہا ہے ۔ اس سے بیوروکریسی میں بے چینی پیدا ہوئی ہے ۔ اگرچہ اس طرح کے الزامات پیپلز پارٹی کی حکومت پر بھی عائد کیے جاتے رہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے کہیں بہتر نظر آتی ہے ۔ بحران میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک مرحلے پر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو غیر آئینی طریقے سے اور بے توقیری کے ساتھ ختم کردیاجائے گا ۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی ریسکیو کے لئے آگے نہ آتی تو جمہوری نظام کسی بھی حادثے سے دوچار ہوسکتا تھا ۔
ہماری قومی سیاست کے ان پہلوؤں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ، جو بحران میں اجاگر ہوئے ہیں ۔ اب ان پہلووں کا ذکر کرتے ہیں ، جو بحران کے نتیجے میں سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہونے لگے ہیں ۔
ایک پہلو یہ ہے کہ بحران سے حکومت اور وزیر اعظم کمزور ہوئے اور اب جلد یا بدیر ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوسکتے ہیں ۔ اس الیکشن سے جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی ، وہ بہت مختلف ہو گی ۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں پیپلز پارٹی خصوصاً سابق صدرآصف علی زرداری کا بہت بڑا کردار نظرآرہا ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی پورے ملک میں جڑیں ہیں ۔ وفاق کے اتحاد کی علامت ہے ، کافی حد تک نظریاتی اور لبرل پارٹی ہے اور چاروں صوبوں میں ہر طبقہ اور ہرطرح کے لوگوں میں جیسے وکلاء‘ دانشور‘ سول کلاس اور پڑھے لکھے لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے ۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ ملک میں قربانیوں‘ جمہوری اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ ہر آمریت میں PPPملک کے لئے ہراول رہی ہے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قد م قدم تجھے یا د گا ر بنا دیا
سابق صدر آصف علی زرداری ایسے سیاسی لیڈر ہیں ، جنہیں لوگ عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کارویہ جمہوری، مفاہمتی ، ترقی پسندانہ اور عملیت پسندانہ ہے ۔ انہوں نے اپنی اسی عملیت پسندی سے5سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت کو چلایا اور کئی بحرانوں اور مشکلات کا سامنا کیا ۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کو ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی کہا جاتا ہے لیکن اگے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج جو جنگ لڑرہی ہیں ، اس میں پاکستانی قوم 1965 ء اس سے بھی زیادہ قومی جذبے کے ساتھ اپنی افواج کا ساتھ دے ۔
تازہ ترین