عام اصطلاح میں محکمہ مال سے مراد وہ محکمہ ہے جو ملک کی سر زمین کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس میں لاہور کی مال روڈ سے لیکر کراچی کی بندر روڈ کا بھی اندراج ملتا ہے۔ بلکہ اس میں اسلام آباد کے "D" چوک کا پتہ چلتا ہے کہ اس کا رقبہ کتنا ہے حالانکہ محترم ڈاکٹر طاہر القادری اور جناب عمران خان صاحب بھی بتانے سے قاصر ہونگے کہ اسلام آباد کی سڑکیں کتنے رقبے پر محیط ہیں۔اس محکمے کی کتنی شاخیں اور کتنے درخت ہیں بہر حال بات کچھ طویل ہو گئی ہے اس لئے معذرت خواہ ہوں اس ڈیپارٹمنٹ کا سب سے بڑا سرغنہ عزت مآب پٹواری صاحب ہیں۔
پٹواری سے یاری سب پہ بھاری
ملک کے بڑے بڑے زمیندار، وڈیرے، چوہدری صاحبان اور نمبردار ان کی چوکھٹ پر حاضری کے علاوہ ان کے بچوں کی شادیوں میں شرکت کرنا اور تحفے اور تحائف دینا ثواب دارین سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ پٹواریوں سے جو ملتا ہے وہ انہیں بڑے بڑے بزرگوں سے نہیں ملتا۔ان کا واسطہ ایک مرلے زمین کے مالک سے لے کر ہزاروں ایکڑ جائیداد کے وارثوں سے پڑتا ہے۔
گائوں اور دیہاتوں کے نمبردار اور بلیک میلر ان کے چیلے ہوتے ہیں ان کے ذریعے پٹواری صاحبان زندہ جاوید ہستیاں کروڑوں نہیں اربوں کی جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔خواص۔ زمین کی خرید و فروخت میں پٹواری صاحب سے ’’فرد‘‘ لینا ضرور ہوتی ہے، فرد حاصل کئے بغیر رجسٹری نہیں ہو سکتی، رجسٹری سے مراد وہ تحریر ہوتی ہے جو زمین بیچنے والے اور خریدار کے درمیان ایک (Commitment) یعنی ایک معاہدہ ہوتا ہے جس پر تصدیق کنندہ کی مہر لگتی ہے یہ عموماً نوٹری پبلک ہوتے ہیں جن کو سرکار نے اختیار دیا ہوتا ہے ایک رقم، خریدنے والے سے وصول کی جاتی ہے جو سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ پٹواری صاحبان سے فرد حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے فرد حاصل کرنے کی سرکاری فیس آج کل زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ یا دو سو روپے ہوتی ہے مگر پٹواری صاحبان 500 سے لیکر 1500 روپے تک وصول کرتے ہیں اور سائلین کے اتنے چکر لگواتے ہیں کہ نانی، دادی یاد آجاتی ہے پھر جب زمین بک جاتی ہے تو خریدار کو قبضہ لینا ہوتا ہے زمین کی نشاندہی پٹواری صاحب کو کرنا ہوتی ہے مثلاً آپ نے پچاس لاکھ کی زمین خریدی نشاندہی کے وقت پٹواری صاحبان 40 سے 50 ہزار بٹور لیتے ہیں میں ان پٹواریوں کے نام بھی جانتا ہوں جنہوں نے لاہور ایئرپورٹ بیچ دیا تھا۔پٹواریوں میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ میں اپنے افسروں کو بھی شامل کرتے ہیں جو نائب تحصیل دار اور تحصیل دارہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک تحصیل دارکی کوٹھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جو دو کنال پر محیط تھی اور اس کا معیار زندگی کسی طرح بھی گورنر سے کم نہ تھا۔ صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب کی زرعی اراضی سونے کے موتی اگلتی ہے مگر تھر اور چولستان کے غریب کسان نان جویں کو ترستے ہیں اور بہت سے چھوٹے کسان چند ہی سالوں میں پٹواری اور پٹے دار کی مہربانی سے اپنی زرعی اراضی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کسانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ نہ تن پہ کپڑا نہ پیٹ مانی (روٹی) اور رہی سہی کسر موسم برسات میں سیلابی ریلے نکال دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں
تو خالق و مالک ہے مگر تیرے جہاں میں
بڑی مشکل سے گزرتے ہیں بندۂ مزدور کے اوقات
شہر کراچی جو قائد اعظم کی ولادت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور دو کروڑ انسانوں کا مسکن ہے وہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے اس کے ارد گرد کی زمین (سرکاری) بڑے بڑے وڈیروں کی ہوس کا شکار ہو گئی ہے۔ محکمہ مال کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کا یہ عالم ہے کہ بورڈ آف ریونیو کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس محکمہ کے بڑے بڑے آفیسر ٹپے دار (پٹواری ) کے ذریعے نہ صرف اس کا (پٹواری ) پیٹ بھرتے ہیں بلکہ کروڑوں روپے کی زمینوں کو بیچ کر بیرون ملک اپنے بنگلے بنواتے ہیں اور اپنے شہزادوں کو غیر ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم بھی دلاتے ہیں۔
لاہور جو خوبصورت باغوں اور پرانی عمارتوں کا شہر ہے اس کے ارد گرد جو زرعی اراضی ہے اس میں کہیں رائے ونڈ کا محل اور کہیں بحریہ ٹائون ہے۔ پٹواری صاحبان فرماتے ہیں۔
پھر بھی گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو تُو بھی تو دلدار نہیں
دلدار سے مراد بڑے بڑے چوہدری اور صنعت کار ہیں
خدایا! یہ میرے وطن کے پٹواریوں کو کیا ہو گیا ہے، تپے داروں کو کیا ہو گیا ہے ان کی غیرت اور حمیت کہاں گئی۔ اگر زمینوں کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو گیا تو ان بچاروں کا کیا ہوگا۔گورنمنٹ تو ایک دھرنے سے حواس باختہ ہوگئی ہے اگرپٹواریوں نے دھرنا دیدیا تو اللہ ! میرے خدایاکیا ہوگا؟