• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے شہر وں غازی انتیپ، وان، بتلیس، دیار باقر اور ایلاضی میں ہونے والے خودکش حملوں کی حکومتِ پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ "حکومت پاکستان دہشت گردی کی تمام اقسام کی مذمت کرتی ہے۔ پاکستان نےخود دہشت گردی میں بہت نقصانات اٹھائے اور ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے ہمیں علم ہے کہ اس طرح کے واقعات کا کس قدر دکھ، غم اور نقصان ہوتا ہے پوری پاکستانی قوم دکھ کی اس گھڑی میں ترک عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔"
دہشت گردی کے اس واقعہ کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا میں ترکی کی شام سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں خبروں کو نمایا ں جگہ دی گئی جس کی ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کی شام سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے البتہ ترکی شام کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنی کوششوں کو مزید تیز کردے گا۔ ترکی شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ کسی بھی صورت براہ راست مذاکرات میں ملوث نہیں ہوگا تاہم ترکی صدر بشارالاسد کو کچھ مہلت دینا چاہتا ہے لیکن طویل المدت بشار الاسد ترکی کے لئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔"
ان دو مختصر سی خبروں کے بعد اب آتے ہیں اصلی موضوع کی جانب۔ پندرہ جولائی میں ترکی میں ناکام بغاوت کے بعدترکی کے کئی ایک دوست اور برادر ممالک نے ترکی سے اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ترکی ان کٹھن حالات میں اپنے دوست اور دشمن دونوں ہی سے اچھی طرح آگا ہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترکی کے صدر ایردوان کئی بار اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ "مغربی ممالک ویسے تو جمہوریت کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں لیکن جب ترکی میں جمہوریت یا ڈیموکریسی کو خطرہ لاحق ہوا تو کوئی بھی مغربی ملک ترکی کی مدد کو نہیں آیا اور نہ ہی مغربی ممالک کے کسی رہنما نے ترکی کا دورہ کرتے ہوئے اظہار یک جہتی کرنے کی زحمت کی۔" ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سب سے پہلے قازقستان کے صدر نور سلطان نظر بائیف نے ترکی کا دورہ کرتے ہوئے صدر ایردوان سے اظہارِ یک جہتی کیا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے چند ایک اراکین ِ پارلیمنٹ جو پاکستان کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ،پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف، صدر ممنون حسین یا پھر صدر ایردوان کے قریبی دوست شہباز شریف کے ترکی کا دورہ کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے شاید پروٹوکول کی کچھ رکاوٹوں کی وجہ سےیہ امید پوری ہوتے دکھائی نہیں دیتی۔بعض اوقات پروٹوکول کی یہ رکاوٹیں دو برادر ممالک کو ایک فاصلے پر کھڑاکردیتی ہیں۔ اسی لئے پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق پروٹوکول کی پروا کیے بغیر ترکی کے دورے پر جب دل چاہتا تشریف لے آتے۔ جب ایک بار ترکی میں چند ایک صحافیوں نے ان سے سوال کیا تھا کہ " آپ پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر جب چاہتے ہیں ترکی تشریف لے آتے ہیں اور کسی قسم کے دعوت نامے کا بھی انتظار نہیں کرتے ہیں؟" تو انہوں نےکہا کہ "بھائی کے گھرآنے کےلئے کسی دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔" تاہم پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے خلاف اور ترکی میں ڈیموکریسی کے حق میں اتفاقِ رائے سے قراردادیں منظور کرتے ہوئے حکومتِ ترکی اور ترک عوام پر یہ ثابت کردیا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی پارلیمنٹ، حکومتِ پاکستان اور پاکستانی عوام ترکی کے ساتھ ہیں۔ اس سلسلے میں سینیٹر مشاہد حسین سید کی قیادت میں پاکستان کا آٹھ رکنی پارلیمانی وفد گزشتہ ہفتے ترک عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے ترکی کے دورے پر تشریف لایا۔ وفد کا استقبال ترکی کی پارلیمنٹ کے سینئر رکن برہان قایا ترک نے کیا۔ اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ "منتخب سیاسی نمائندے جمہوریت کے دفاع پارلیمنٹ کے تحفظ اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے پر پارلیمنٹ عوام اور صدر اردوان سے اظہار یکجہتی کے لئے ترکی آئے ہیں۔" پاکستان کے پارلیمانی وفد نے انقرہ میں سب سے پہلے جدیدجمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ وفد کے سفارت خانہ پاکستان پہنچنے پر وفد کو سفیر پاکستان جناب سہیل محمود نے ترکی پاکستان کے تعلقات کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔رات کو سفیر پاکستان کی جانب سے وفد کے اعزاز میں ایک عشائیے کا بندو بست کیا گیا جس میں وزیراعظم کےمشیر عمر فاروق قورقماز ترک پارلیمنٹ میں پاک ترک پارلیمانی دوستی گروپ کے چیئر مین مہمت بالتا اور پاک ترک کلچرل ایسوسی ایشن کے چیئرمین برہان قایا ترک، راقم اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اگلے روز پارلیمانی وفد نے ترک صدر ایردوان سے ملاقات کی۔ صدر ایردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے ترکی میں ڈیموکریسی کے تحفظ کے لئے اتفاقِ رائے سے منظور کردہ قرار دادوں پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے ترکی میں ڈیمو کریسی کی حمایت کی غرض سے ٹیلی فون کیے جانے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ترکی اور پاکستان میں جاری دہشت گرد ی پر قابو پانے کے لئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت پر زور دیا۔صدر ایردوان نے اس موقع پر کہا کہ پاکستانی وفد کا دورہ ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد پاکستان نے جس طرح ترکی میں ڈیمو کریسی کی حمایت کی ہے وہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکریے کی غرض سے وہ جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے اس موقع پرصدر ایردوان کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے منظور کی جانے والی قرار دادوں پر مشتمل شیلڈ پیش کی۔سینیٹر طلحہ محمود نے پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما ئے کرام کے ترکی میں جمہوریت کی پاسداری اور صدر ایردوان کی حمایت میں جاری فتویٰ کی نقل پیش کی۔اس ملاقات میں سینیٹر محمد جاوید عباسی، سینیٹر سحر کامران، ایم این اےمنزہ حسن، سینیٹر محمد طلحہ، سینیٹر منیر کبیر احمد محمد شاہی، سینیٹر ستارہ ایاز اور سینیٹر صاحبزادہ طارق اللہ بھی موجود تھے۔
بعد میں پارلیما نی وفد نے ترک پارلیمنٹ کا دورہ کیا اور اجلاس کی کارروائی دیکھی۔ اس موقع پر ارکان پارلیمنٹ نے نشستوں سے کھڑے ہو کرپاکستانی وفد کا استقبال کیا۔ ترک ارکان پارلیمنٹ نے 15جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد اظہار یکجہتی کیلئے پاکستانی پارلیمنٹ سے قراردادیں پاس کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ وفد نے بعد میں ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسماعیل قہارامان سے ملاقات کی۔اسپیکر اسمبلی نے پاکستانی وفد کا خیر مقدم "پاکستان زندہ باد "کے نعرے سے کیا۔ اس موقع پر اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ حکومت پاکستان نے جس طرح سے ترکی میں 15جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد جمہوریت کی بحالی کی حمایت کی ہے وہ ایک نا قابل فراموش حقیقت ہے۔انہوں نے وفد کو بتایا کہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے خلاف انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران استنبول میں ایک احتجاجی مظاہرے کی بھی قیادت کی تھی جس کا نام پاکستان زندہ باد تھا۔وفد کے قائد سینیٹر مشاہد حسین نے اس موقع پر اسپیکر اسمبلی کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف سے منظور کردہ مشترکہ قرارداد کی نقل پیش کی۔بعد ازاں وفد کو ترک اسمبلی کے تباہ حال حصوں کا دورہ کروایا گیا جہاں 15جولائی کی شب بم پھینکے گئے تھے۔ وفد اپنے دورے کے آخری مرحلے میں استنبول گیا جہاں استنبول کے مئیر قادر توپباش نے ان کا استقبال کیا۔ پارلیما نی وفدنے استنبول میں15جولائی کی ناکام بغاوت کی کوشش کے دوران مزاحمت پر جاں بحق ہونے والے ترک باشندوں کی یادگار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔

.
تازہ ترین