اسلام آباد ( آن لائن ) متحدہ قومی موومنٹ نے پارٹی کو بچانے کے لئے 2002 ء کے محترمہ بے نظیر بھٹو کے فارمولے پر عمل کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو 2002 ء میں سنگین نوعیت کے مقدمات کے باعث وطن واپسی میں دشواری تھی تو انہوں نے مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز بنا کر پارٹی کا ووٹ بنک بھی محفوظ رکھا اور اختیارات کی مرکزیت بھی برقرار رکھی ۔ اس سے قطع نظر کہ الیکشن کمیشن میں پارٹی کسی دوسرے لیڈر کے نام پر رجسٹرڈ ہے،ایم کیو ایم کے آئین کے آخری باب میں الطاف حسین کو بانی قائد تحریک تحریر کیا گیا ہے اور آئین کے تحت الطاف حسین کو پارٹی میں کسی بھی نوعیت کا فورم بنانے اور اسے توڑنے کا اختیار حاصل ہے اور پارٹی کی باقی قیادت کوئی بھی فیصلہ کرے گی تو جب تک الطاف حسین اس کی توثیق نہیں کرتے اسے قانونی حیثیت حاصل نہیں ہو گی اور ان کے انکار کی صورت میں پارٹی کا فیصلہ کالعدم تصور کیا جائے گا ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے تحریری آئین کی موجودگی میں فاروق ستار یا کوئی اور پارٹی کو پاکستان سے چلانے کا اعلان کر ہی نہیں سکتا اور اسی لئے لندن کی رابطہ کمیٹی نے منگل کو واضح کر دیا کہ پارٹی امور حسب سابق ہی چلائے جائیں گے ۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین ، لندن رابطہ کمیٹی اور پاکستان میں موجود پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے درمیان تفصیلی مشاورت کے بعد لائحہ عمل مرتب کیا گیا ۔ فاروق ستار کی اس وقت ایم کیو ایم میں وہی حیثیت ہے جو 2002 میں پی پی پی میں مخدوم امین کی تھی کیونکہ تمام اہم فیصلے محترمہ بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سابق جنرل پرویز مشرف نے مخدوم امین فہیم کو پی پی پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن جب مخدوم امین فہیم نے دبئی میں موجود محترمہ بے نظیر بھٹو سے رابطہ کیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور چند گھنٹے وزارت عظمیٰ کا پروٹوکول لینے کے بعد مخدوم امین فہیم نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو اپنی لیڈر کے فیصلے سے آگاہ کردیا ۔