• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2018کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے پنجاب میں میدان مارلیا۔ یہاں تک کہ نواز شریف بھی اپنی سیٹ نہ جیت سکے، پی ٹی آئی البتہ کچھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابی نتائج کسی کے لئے حیران کُن نہیں تھے، کیوں کہ پیپلزپارٹی کا یہ دعویٰ تھا کہ اس نے سندھ میں جو کارکردگی دکھائی تھی، اُس کے بعد پنجاب میں اس کا جیتنا تو بنتا تھا۔ بلاول بھٹو نے نوجوان قیادت کو سامنے لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے علی موسی گیلانی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ نون لیگ کی پنجاب سے صفائی بلکہ دُھلائی کرنے پر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو وزیراعلیٰ پنجاب کا مشیرِ خاص مقرر کیا گیا ۔
13جون، بروزجمعرات2019 کو اچانک مجھے کراچی سے لاہور جاناپڑگیا۔ علامہ اقبال ائیرپورٹ سےباہر آیا،تو وزیر اعلیٰ پنجاب موسی گیلانی کی بڑی سی تصویر والا بورڈ نصب تھا۔ مجھے میرے چھوٹے بھائی کی آواز سُنائی دی،جو مجھے لینےآیاتھا۔ بھائی گلے ملا تو سہی، لیکن مجھےاُس میں لاہوریوں والی روایتی زندہ دلی دکھائی نہ دی۔ تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی، مگر میں نے سوچا، ہو سکتا ہے کہ یہ میرا وہم ہو، گاڑی میں بیٹھنے سےپہلے میں نے جیب سے موبائل نکالا تاکہ اپنی فیملی کوخیریت سے پہنچنے کی اطلاع دے سکوں۔ ’’ناں ناں… فون جیب میں رکھیں۔‘‘بھائی کے لہجے میں خوف واضح تھا۔ ایک بار پھر مجھے شدیدحیرت ہوئی کہ عام طور پر تو یہ اندازکراچی والوں کے ہوتے ہیں۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور گھر کے لئے روانہ ہوگئے۔ گاڑی جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی، میری حیرت بھی بڑھتی جا رہی تھی، صرف ڈیڑھ سال پہلے کا ہر منظر یک سر بدل چکا تھا۔ مجھے لگا کہ میں لاہور کے بجائے، سندھ کے کسی شہر میں اُتر گیا ہوں۔ کراچی، گھوٹکی، جیکب آبادیاپھر سکھر… جگہ جگہ لگےکچرے کے ڈھیر سےاُٹھنےوالا تعفن گاڑی میں بھی محسوس ہو رہاتھا۔ گرین بیلٹس بھی کچرے سے بھری پڑی تھیں۔ گٹر ابل رہے تھے اور سڑکوں پر بدبودار پانی جمع تھا۔ میں نےبھائی سے پوچھا، یہ مَیں لاہور کی کیاحالت دیکھ رہاہوں؟ اُس نے ایک گہری سانس لی اور بولا، ’’کچرا اٹھانے والی کمپنی کو پچھلے چھ ماہ سے ادائیگی نہیں ہوئی، توکمپنی نے کچرا اٹھانا بند کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تین دن میں لاہور کلین کرنےکا نعرہ تولگایا ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا، کوئی بہتری ہوگی‘‘۔
شہر میں سیکورٹی کی صورتِ حال بھی یک سر مختلف نظر آئی، لاہور کی ہر سڑک، چوراہے پر جگہ جگہ رینجرز اہلکار نظر آرہے تھے۔ پیاس کا احساس ہوا تو ہم ایک دکان پر رُک گئے اور بس یہی غلطی ہوگئی۔ جیسے ہی میں نےاپناوالٹ نکالا، موٹر سائیکل پرسوار دو افراد نہ جانےکہاں سےکسی دیو کی طرح نمودار ہوئے۔ ایک نے میرے سر پرسیون ایم ایم پستول رکھی اور پھرچند ہی منٹوں میں ہم دونوں بھائی مکمل طور پر کنگال ہو چکےتھے۔ وہ تو شُکر تھا کہ اے ٹی ایم کارڈ الگ جیب میں تھا، وہ بچ گیا۔ میرے کہنےپر بھائی نے ایک بینک کے سامنے گاڑی روکی اور خود بھی ساتھ اُتر آیا۔ پھر میں جتنی دیر بوتھ کے اندر رہا، وہ باہر پہرہ دیتارہا۔ ایک خوف کے عالم میں ہم نے پیسے نکلوائے۔ وہاں سےمال روڈپہنچے، تو وہ سڑک کسی حد تک صاف نظر آئی، لیکن صاف لگ رہا تھا کہ اُس کی تباہی کا بھی آغاز ہو چکا ہے، تھوڑا ہی آگے گئے ہوں گےکہ بدترین ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ پتاچلا، ہزاروں لوگ میٹرو بس کی بندش کےخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بھائی نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے میٹرو بس یہ کہہ کر بند کر دی ہےکہ اس کے لئے اربوں روپے کی سبسڈی نہیں دی جاسکتی، ویسے بھی پانچ، دس لاکھ افراد ہی تو روز اس بس سےسفر کرتے تھے، جب میٹرو نہیں تھی، تب بھی توگزارہ ہو ہی رہا تھا۔ ہاں البتہ ملتان میں میٹرو بس چل رہی ہے، کیوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب موسیٰ گیلانی کا کہنا ہے کہ ملتان کے غریب عوام، لاہوریوں کی طرح رکشوں، ٹیکسیوں میں سفر نہیں کرسکتے۔ احتجاج کےدوران کچھ مظاہرین عمران خان کے خلاف بھی نعرے لگاتے نظر آئے، کیوں کہ قائد حزب اختلاف عمران خان نے میٹرو کی بندش پر پنجاب حکومت کے فیصلے کو سراہا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ عمران خان اورنج ٹرین منصوبہ بھی بند کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کم اور رینجرز زیادہ دکھائی دی۔ بھائی نے بتایا کہ ڈولفن فورس بھی یہ کہہ کر ختم کر دی گئی ہے کہ اس سے اسٹریٹ کرائم میں کوئی فرق نہیں پڑا، الٹا حکومت پر بوجھ بڑھاہے۔
احتجاج کے باعث ہم کئی گھنٹےٹریفک میں پھنسے رہے۔ اس دوران ایک ہاکرنظر آیا، تو میں نے وقت گزاری کے لئے اخبار خرید لیا۔ فرنٹ پیج پر پہلی خبر اورنج ٹرین منصوبے کے بارے میں تھی کہ جب سےنئی حکومت آئی ہے، یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے، صرف ڈھائی کلو میٹر کا راستہ باقی ہے، لیکن ڈیڑھ سال سےیہاں کام بند ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت اس کاذمہ دار، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو قرار دے رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہےکہ شہباز شریف نےدوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اپنی شکست دیکھتے ہوئے منصوبے سے جان چھڑائی اور پیپلزپارٹی کو شرمندہ کرنے کے لئے جان بوجھ کر منصوبہ نامکمل چھوڑدیا۔ نندی پور پاور پروجیکٹ تو وزیر اعلیٰ موسیٰ گیلانی نےحکومت سنبھالتے ہی بند کردیا، لیکن کئی اور پاور پروجیکٹس بھی بند ہو چکےتھے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ایک بار پھر بارہ سے اٹھارہ گھنٹے تک جاپہنچا تھا، جب کہ دیہی علاقوں کا تو کوئی پرسانِ حال ہی نہ تھا۔ لاہور میں بجلی کا نظام پرائیویٹ کمپنی ایل الیکٹرک چلارہی تھی، مگر پنجاب حکومت کےلئے اصل مسئلہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ نہیں، اصل پریشانی تو یہ تھی کہ شہبازشریف حکومت نےسابقہ منصوبوں کے ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو دئیے تھے، جس سےقومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا، لہٰذاسابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی تھی، جس میں اپوزیشن جماعت، پی ٹی آئی سے بھی ایک رکن کو لیا گیا۔ کمیٹی اس بات کا کھوج لگارہی تھی کہ کہاں کہاں کتنے گھپلےہوئے۔ نئےاور سستے پاور پروجیکٹس کے لئے مختلف کمپنیوں سے ازسرِنو معاہدے کیے گئے،جب کہ پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں پر ان منصوبوں میں بھاری کک بیکس اور کمیشن لینے کے الزامات بھی لگ رہے تھے، تاہم پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے اُسی روایتی موقف پر ڈٹی ہوئی تھی کہ جب تک کرپشن ثابت نہیں ہوجاتی، کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی پر کرپشن کے الزامات لگاناہمیشہ سےمخالفین کاوتیرہ رہا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اتنی ہی کرپٹ ہوتی، تو پاکستان کے عوام اسے بار بار کیوں منتخب کرتے اور 2018 کے انتخابی نتائج تو گواہی دے رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانازیڈاےبھٹو سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔
ڈیڑھ سال میں پنجاب کے تین وزیرِ بلدیات تبدیل کیےجا چُکے تھے، جن میں سے ایک تو بیرونِ مُلک بھی فرار ہو گئے، اُن پر کروڑوں روپے کے غبن کے الزامات تھے۔ اخبار کے بیک پیج پر ایک سنگل کالمی خبر نے مجھے اپنی طرف متوجّہ کیا۔ ’’جوہر ٹاؤن میں چھاپہ، لاری اڈہ گینگ وار کے تین ملزمان گرفتار، قبضے سے اسلحہ اور منشیات برآمد۔ ملزمان قتل، دہشت گردی اور بھتّہ خوری جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث تھے۔‘‘یہ خبر بتا رہی تھی کہ لاہور، اب پوری طرح کراچی کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور سوچنے لگا، کراچی اور لاہور کی زندگی میں اب کوئی فرق نہیں رہا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ آگئی کہ بھائی میں آج لاہوریوں والا روایتی جوش و خروش کیوں نظرنہیں آیا۔ ہماری گاڑی کے پیچھے ہارن پر ہارن بج رہے تھے اور ایک ہارن کی آواز تو اتنی تیز تھی کہ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا تو عین اُسی وقت سندھ کے صوبائی وزیرمنظور وسان کا ٹی وی پر وہی بیان چل رہا تھا کہ جسےدیکھتے دیکھتے ہی رات میری آنکھ لگی تھی۔ موصوف فرما رہے تھے کہ دوہزار اٹھارہ میں پیپلزپارٹی پنجاب میں بھی جیتے گی اور پھر وہاں بھی سندھ جیسی ترقی ہوگی۔


.
تازہ ترین