ملتان(سٹاف رپورٹر)بزرگ سیاستدان مخدوم جاویدہاشمی نے نواب اکبربگٹی کی موت کے اثرات کے حوالے سے اپنی زیرطبع کتاب’’ زندہ تاریخ ‘‘ سے اقتباس جاری کیاہے،جس میں کہاگیاہے کہ اکبربگٹی کوہم سے جداہوئے 10 سال ہوچکے ہیں،حکمرانوں کے نا عاقبت اندیشانہ فیصلوں کی گونج نہ صرف بلوچستان بلکہ ساری دنیامیں سنائی دے رہی ہے میں نے اس وقت بھی مضمون لکھاتھاکہ نواب اکبر بگٹی کی موت مشرقی پاکستان کی سانحہ کے بعد بہت بڑا واقعہ ہے،یہ زخم پاکستان کیلئے جان لیوابھی ہوسکتاہے،ان کی ہلاکت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت کی عکاس ہے جوکسی قیمت پراپنے اوپرنکتہ چینی برداشت کرنے کوتیارنہیں،جنرل پرویز مشرف نے اخبارنویسوں سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ میں اکبربگٹی اورجاویدہاشمی کوعبرت کی مثال بنادونگا کاش بگٹی کی جگہ مجھے تابوت میں بندکرکے اس پرتالے لگاکردفن کیاجارہاہوتاتوپاکستان کواتنانقصان نہ پہنچتا،پاکستان کے دشمن بھی اتنانقصان نہیں پہنچاسکتے جتنانادا ن دوستوں نے پہنچایا،اکبربگٹی کوجس طرح ماراگیاکسی تہذیب یافتہ معاشرے میں اس کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا،اس کاجسم سنگ مرمر سے تراشا ہواشاہکارلگتا تھا،وہ جب ٹینس کیلئے میدان میں اترتا تو ایسے لگتاکوئی یونانی دیو مالائی کردار اولمپک کی شمع روشن کر کے پہاڑوںکی چوٹی سے اتررہا ہے،کوٹ لکھپت جیل میں کئی مہینے ایک ہی بیرک میں اکٹھے گزارے،یہ ذوالفقارعلی بھٹوکاآخری دورتھا۔ جب میں جیل میں پہنچاتو معلوم ہوانواب اکبر بگٹی کو سزائے موت کی کوٹھڑی میں الگ بندکردیاگیاہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر اور میں نے اس کوٹھڑی کاتالہ توڑااورنواب صاحب کو بیرک میں لے آئے۔ یہاں محمودعلی قصوری،خورشیدمحمودقصوری،ایس ایم ظفر،جسٹس عامررضا اے خان اوردیگر قائدین تحریک بندتھے۔ نواب اکبربگٹی شروع دن سے ہمارے ملک کامتنازعہ سیاسی کردار رہا ہے ان پر12سال کی عمر میں قتل کا الزام لگا جس کی انہوںنے کبھی تردید نہیں کی لگ بھگ 15سال کی عمر میں انہوں نے قائد اعظم ؒ سے ملاقات کی اوربانیان پاکستان میں شمارکئے گئے،1952ء میں گیس کی تلاش کیلئے کنویں کھودے گئے توبھرپورتعاون کیا۔ آج اس گیس پرپاکستان کی معیشت کادارومدارہے، وہ اپنے قبیلے کیلئے سخت گیر ہوتے گئے مگر کوئی فردگیس کی پائپ لائن کونقصان پہنچانے کاسوچ بھی نہیں سکتا تھا نہ ہی وفاقی حکومت کواس پائپ لائن کی حفاظت کاسوچنا پڑا۔جب ڈھاکہ میں فوج نے ہتھیارڈالے تواکبربگٹی نے سخت بیان جاری کیاجبکہ عطاء اللہ مینگل نے کہاکہ اگر خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ گیاتوہم بلوچستان کانام پاکستان رکھ دینگے۔ چندروزبعداکبر بگٹی وفاق کی حمایت کررہاتھااورعطاء اللہ مینگل غداری کے مقدمہ میں جیل میں تھا۔ پھر منظر بدلا سردارخیربخش مری،عطاء اللہ مینگل روسی انقلاب کوخوش آمدید کہنے کیلئے افغانستان میں روسی فوجوں کی جنگ میں عملی طوپر حصہ لے رہے تھے اور اکبربگٹی وفاق کی حمایت کررہے تھے۔ اکبر بگٹی کابڑے سے بڑادشمن بھی اسے پاکستان دشمن کانام نہیں دے سکتا۔گوادرکوپاکستان میں شامل کرانے کیلئے ان کاکردار مرکزی حیثیت کا حامل تھا ورنہ قطرکے حکمرانوں نے ہندوستان سے گوادر کاسوداکرکے کچھ رقم بھی وصول کرلی تھی۔آخری مرحلہ میں حکمران جماعت کے صدر اور سیکرٹری جنرل نے ان سے تحریری مطالبات کی دستاویزحاصل کی مگر اس کے بعدبات چیت کے درازے بندکردیئے گئے۔اکبر بگٹی کامطالبہ یہ تھا کہ 43چوکیدار گیس کے 86کنوئوں پربھرتی کیے جائیں اور142بیروں کو جو20سال سے کام کررہے ہیں انہیں مستقل کیاجائے۔ اکبر بگٹی کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے مگر ان کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ کے شہیدبھی بن گئے ہیں،وہ ایسے ضدی انسان تھے کہ موت بھی اپنی مرضی کے مطابق حاصل کی۔