اسلام آباد( طاہر خلیل) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بتارہےتھے کہ الطاف حسین پاکستانی پاسپورٹ سے دستبردار ہوچکےہیں اور اب وہ مکمل طور پر برطانوی شہری ہیں اور ان کے پاس برطانیہ کا پاسپورٹ موجود ہےاور یہ آج کا واقعہ نہیں، الطاف حسین کو برطانوی شہریت لئے 14 برس گزر چکے ہیں۔ انہوں نے2001 میں برطانوی شہریت حاصل کی تھی، اس کے ساتھ دو حلف نامے بھی جمع کرائے تھے ایک حلف نامہ ملکہ برطانیہ کے ساتھ ذاتی و وفاداری جبکہ دوسرا حلف نامہ ریاست برطانیہ کے ساتھ وفادر رہنے کے عہد پر مبنی تھا ۔ملکہ برطانیہ سے حلف وفاداری کرتے ہوئے انہوں نے عہد کیا تھا’’ میں الطاف حسین اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد برطانوی قانون کے مطابق ہرمیجسٹی ملکہ الزبتھ دوم،ان کے ورثا اور جانشینوں کا تابعدار رہوں گا‘‘ جبکہ سلطنت برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے عہدنامے میں انہوں نے عہد کیا’’میں برطانیہ عظمیٰ کا وفادار رہوں گا اوراس ریاست میں رائج قوانین، حقوق اور آزادیوں کا احترام کروں گا، برطانیہ میں جمہوری اقدار کی پاسداری کروںگا اورصدق دل سے ان تمام قوانین اور ذمہ داریوں کا پابند رہوں گا جو برطانیہ میں رائج ہیں‘‘ بعد ازاں 2002 میں الطاف حسین کی درخواست پر انہیں برطانوی پاسپورٹ جاری کیاگیا۔ قبل ازیں الطاف حسین نے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے امریکا میں نائن الیون کے فوراً بعد برطانوی حکام کو خط لکھ کر پیش کش کی تھی کہ وہ ایک فلاحی ادارے کے ذریعے افغانستان میں مغربی افواج کے لئے جاسوسی بھی کروا سکتے ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین بھی الطاف حسین کی برطانوی حکام کو پیش کش کی تصدیق کرچکاہے اوراخبار نے کہا کہ یہ خط بالکل اصل ہے۔ پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ نائن الیون کے بعد لکھے گئے خط کی بنیاد پر برطانیہ نے الطاف حسین کو شہریت دینے کی فائل اوپن کی تھی ۔ اس طرح الطاف کو برطانوی شہریت ملنے میں اس خط کا اہم کردار تھا، گزشتہ برس الطاف حسین کے پاس موجود پاکستانی پاسپورٹ کی مدت معیاد ختم ہوگئی تھی ۔ انہوں نے کراچی میں اپنی پارٹی کے ذریعے اس مسئلے میں سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت سےبھاری فنڈنگ کے ثبوت ملنے کے بعد پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین پاکستانی پاسپورٹ لینے میں سنجیدہ نہیں اوروہ اس مسئلے پر سیاست بازی کرنا چاہتےتھے۔ حال میں سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں رینجرز حکام کی پیش کردہ رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا کہ کراچی میں چارملکوں سے دہشت گردی اوربدامنی کے لئے فنڈنگ کی جارہی ہے ان میں بھارت ، جنوبی افریقا، برطانیہ اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 2013 کے بعد سےغیر ملکی فنڈنگ کے ضمن میں اب تک 7950 آپریشن کئے گئے جس کے نتیجے میں 6361 افراد کو پولیس اور 221 کو ایف آئی اے، اے این ایف اورکسٹمز کے حوالے کیاگیا۔افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ غیرملکی فنڈنگ میں گرفتار 5518 افراد کو ایف آئی آر درج کئے بغیررہا کردیا گیا۔ ناقص پیروی کی وجہ سے1313 ملزموں کی ضمانتیں منظور ہوگئیں کراچی میں ٹارگٹ کلرز نے7224 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف بھی کرلیاہے۔ رینجرز رپورٹ سے اس حقیقت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے کہ کراچی میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز بعض سینئر حکام جاری آپریشنز کو ناکام بنانے کےلئے کام کررہے ہیں ۔ یہ وہی سہولت کار ہیں جن کی وجہ سے کراچی میں بد امنی ختم نہیں ہورہی اور دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں حالانکہ نیشنل ایکشن پلان کے آغازمیں ہی طے پایا تھا کہ کراچی آپریشن کی بلا امتیاز کارروائی میں کسی دوست دشمن کی تفریق اورتمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ فاروق ستار پولیٹیکل انگیج منٹ کی بات کرتے وقت یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ ربع صدی سے اسی جماعت کی قانون شکن سرگرمیوں کی سرپرستی سے کراچی دنیا کے10 انتہائی خطرناک شہروں میں شمار ہونے لگا۔ ا س لئے ملک کے تمام محب وطن حلقے اصرار کررہےہیں کہ قومی اداروں کو ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائےطاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ملکی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ یہ کسی فرد یا پارٹی کامعاملہ نہیں قومی بقا اور ملکی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ کراچی کوہر قسم کے دہشت گردوں سے پاک ہونا چاہیے۔