• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
10اکتوبر کی دوپہر ایک بجے جب میں نے اپنا کالم فیکس کیا تو عمران خان کا طوفانی ملتانی جلسہ ہونے میں کئی گھنٹے باقی تھے اس لئے میں نے لکھا، .....
’’ملتان کا جلسہ ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی ہیں۔ دعا ہے اور امید بھی کہ یہ جلسہ پی ٹی آئی کی روایت کے مطابق شاندار ، جاندار اور تاریخی ہوگا۔ اگرایسا ہو گیایعنی کراچی، لاہور اورمیانوالی کے بعد ملتان نے بھی ن لیگ کے خلاف ’’پائل اپ‘‘ ہوچکی نفرت کا اعلان کردیاتو سمجھو میدان ماراگیا اور پھر سیاسی قبرستان میں بھی تبدیل ہو گیا۔ ایسااحتساب ہوگا جو عمران کے علاوہ کسی کے بس میں ہی نہیں۔
ملتان کا اعلان سامنےآتے ہی آصف زرداری اور شریف برادران میں مزید قربتوں کا دلچسپ امکان ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے دیتے اپنا مزید کباڑہ کرلیں گے اور عوام پر یہ سچ مزید واضح ہو جائے گا کہ..... ’’اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہ تھا اور تو کبھی میرا نہ تھا
اس بار بیوفائی عوام کریں گے..... انشا اللہ‘‘
عمران خان ان دونوں کے ساتھ وہ کر رہا ہے جو بندر سانپ کے ساتھ اور سکھ جوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندرسانپ اور سکھ جوں کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ بندرسانپ کو پھن سے پکڑ کر زمین پر رگڑتا ہے، پھرتھوکتاہے اور یہ حرکت اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک سانپ وفات نہیں پاجاتا۔ ادھر سردار صاحب کو جوں تنگ کرےتو وہ بنیان الٹانے پلٹانے لگتے ہیں۔ سردارصاحب کو یہی کچھ کرتے دیکھ کر کسی نے پوچھا..... ’’سردارجی! کیا کر رہے ہو؟‘‘ ’’جوں بہت تنگ کر رہی تھی میں اسے ہفا ہفا اور تھکا تھکاکے مار رہا ہوں۔‘‘
عمران خان بھی انہیں ہفا ہفا او ر تھکا تھکا کے مار رہا ہے۔ جیسے یہ لوگ گزشتہ چند عشروں سے عوام کو بھگا بھگا، تھکا تھکا کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔
میں نے اوپر کہیں عوام کی ’’بے وفائی‘‘ کا ذکر کیا ہے تو جس طرح ان دونوں مین سٹریم پارٹیوں نے اپنے اتحادیوں، الحاقیوں، درباریوں، بھائی والوں اور سیاسی پارٹنرز کے ساتھ مل کر عوام کی توہین اور تذلیل کی ہے، جیسے انہیں روندا، رگیدا اور بھوکوں مارا ہے ایسے تو کوئی جانوروں کےساتھ بھی نہیں کرتا۔ روٹیاں، کپڑے اور مکان توکیا یہ فرعون صفت عوام کو وہ عزت بھی نہ دے سکے جومفت ملتی ہے اور آئی ایم ایف سے بطور قرض نہیں لینی پڑتی۔ یہ عوام کا مال ہی نہیںا ن کا مینڈیٹ بھی لوٹتے رہے۔
عوام نے انہیں بے تحاشہ محبت سے نوازا اور انہوں نے اسے عوام کی حماقت سمجھا۔ عوام نے انہیں اپنا لیڈر بنایا، یہ ان کے آقا بن کر انہیں اپنی رعایا سمجھنے لگے۔ عوام نے انہیں عزت دی ،انہوں نے عوام کی بے عزتی کو اپنی عادت بنالیا۔ ان کی رہائش گاہوں کےباہر پولیس اہلکاروں کے لشکر دیکھ کر میرا خون کھولتا ہے، لوگوں کے لئے رستے روکتے ہیں تو جی چاہتا ہے انہیں گریبانوں سے پکڑ کر انہی رستوں پر گھسیٹوں کہ اس غلیظ حرکت سے عوام کی ذلت و اہانت ہی نہیں ہوتی دیگر بے شمار مشکلات کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان فرسٹ جنریشن فرعونوں کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگی۔ آج کل یہ سہمے اور دبکے ہوئے ہیں۔ان کے سار ے طمطراق پر برف گری ہوئی ہے لیکن افسوس یہ بروقت موسم کی تبدیلی کا اندازہ نہ لگاسکے اور اب ان کا سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے..... اب عوام کی ’’بے وفائی‘‘ بھگتو سیاسی بیوقوفو!
قارئین!
جلسہ قریب الاختتام تھا کہ میں نےکالم کے لئے قلم تھام لیا۔ کچھ دیر بعد پٹی چلی کہ جلسہ میں بھگدڑ کی وجہ سے کچھ لوگ متاثر ہوئے جنہیں ہسپتال لے جایا جارہا ہے، قلم رک گیا۔ پھر کچھ دیر بعد یہ منحوس خبر ملی کہ سات آٹھ کارکن ملک میں تبدیلی لانے کی مقدس کاز پرقربان ہوگئے۔ یہ سب شہدائے جمہوریت ہیں اور یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی لیکن بدقسمتی کی انتہا دیکھیں کہ انہیں دیکھنے کوئی صوبائی وزیر پروٹوکول کے ساتھ ہسپتال کی طرف جانکلا۔ ذہنیت پر غور کریں کہ کس موقعہ پر پروٹوکول؟ یہ ذہنی کوڑھ کے وہ مریض ہیں جو اقتدار سے باہر ہوں تو نارمل رہتے ہیں، اقتدار ملتے ہی بیمار اور ابنارمل ہو جاتے ہیں۔ بیرون ملک بسوں کے ساتھ لٹکتے اور لور لور پھرتے ہیں، قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن اپنے وطن اور اقتدار میں گھستے ہی ان کے اندر کا ساراگند پروٹوکول کی صورت میں باہر آ جاتاہے۔ قسم ہے اس دھرتی کی کہ اگر اقتدار میں سے ’’اندھا اختیار‘‘..... ’’بے تحاشالوٹ مار‘ ‘اور ’’پروٹوکول کی پھٹکار‘‘ واپس لے لی جائے تو یہاں ایم این اے، ایم پی اے کے امیدوار ڈھونڈنے مشکل ہو جائیں۔ پھراس صوبائی وزیرکاحال بھی دیکھ لیںجو پروٹوکول کے ساتھ آیا اور ’’عزت‘‘بچا کر رکشے میں تشریف رکھ کر فرار ہو گیا۔ ہر پروٹوکولئے کے ساتھ یہی کچھ ہونے والا ہے اور ہر استحقاقیئے کا بھی یہی مقدر ہے۔ یہاںضمناً ایک سیاسی ضمنی کا ذکر بھی کرتاچلوں۔ میرا اشارہ سیلف میڈ مخدوم جاوید ہاشمی کی طرف ہے جو اپنی زندگی میں ہی سیاسی طور پر ماراگیا۔ انگریزی زبان کا معروف محاورہ ہے "All is well that ends well" مجھے جاوید ہاشمی کے اس انجام پر افسوس ہے کہ اس بیچارے کو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کہ ضرورت سے زیادہ چالاکی اور ہیروپنتی کا یہی انجام ہوتا ہے۔ آدمی کتنا ہی بڑا پھنے خان کیوں نہ بن جائے، اسے اپنی تھوڑی سی سادہ لوحی بلکہ بیوقوفی کو ہر قیمت پر بچا کر رکھنا چاہئے۔ قدرت بہت زیادہ چالاک اور سیانے لوگوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے کہ یہ ’’سیانا کوّا‘‘ تو اپنے لئے خود ہی کافی ہے۔ شریف برادران اور زرداریان کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ وہ چالاکی، مکاری، عیاری، چالبازی، شاطری، جوڑتوڑ، شارپنگ، بازی گری وغیرہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ہر معا ملہ میں خودکفیل تھے کہ قدرت نے ایک اشارہ کیا اور یہ سب عمر و عیار انتہائی سادہ، غیرسیاسی، غیرچالاک، کھلاڑی اور اناڑی عمران خان کے سامنے اپنی اگاڑی پچھاڑی بھول گئے۔ ان پڑھوںنے کبھی اس پر غورہی نہ کیا ہوگا کہ کارسیکاکا بے نام و نشان و گمنام معمولی سا نپولین کچھ بھی نہ ہونے کے باوجود فرانس کی بادشاہت تک جا پہنچا لیکن جب اس کے پاس طاقت، شہرت، دولت، عظیم لشکر، بے پناہ تجربہ غرضیکہ سب کچھ تھا تو وہ ایک گمنام جرنیل سے شکست کھا کر سینٹ ہیلنا جیسے بے رحم جزیرے میں بے بسی کی موت مارا گیا۔
نپولین بوناپارٹ ایک لیجنڈ اور کئی حوالوں سے جینئس تھا تو یہ بیچار ےکس شمار قطار میں؟خدا جانے انہیں کوئی سینٹ ہیلنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اولیا کی سرزمین ملتان کا اعلان پورے پاکستان کا اعلان سمجھ لیںتو پھر یہ بھی سمجھ لیں کہ تبدیلی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، یہاں تک کہ اب خود عمران خان بھی چاہے تو یہ سب کچھ ریورس نہیں ہوسکتا۔ ’’بے وفا‘‘عوام کا جن جعلی جمہوریت کی بوتل سے باہر نکل کر مسلسل ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے۔
’’میں کیا کروں؟ میں کس کو کھائوں؟‘‘
تازہ ترین