• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھیل پرانا ،کھیل جاری ،کھیل طوالت پکڑ چکا ہے۔ شدت،حدت میں تیزی ضرور، مگرکھیل منطقی انجام کے قریب ہے۔ڈراپ سین آنے کو ۔ اچھی خبر،دشمنان وطن مرضی کے نتائج برآمد کرنے میںناکام رہیں گے۔کوئٹہ میں تاک تاک کروکلاء برادری پر بزدلانہ بربریت، وطن عزیز میں خاطر خواہ، حسب منشاء ہلچل پیدانہ کر سکی۔ چنانچہ الطاف بھائی کے بیان اور واردات پر تکیہ کی فوری ضرورت پڑنا تھی۔ را کے سابقہ چیف دائولت نے بغیر لفظ چبائے افشاء کیا کہ’’ الطاف حسین ایم آئی 6کی اشیر بادسے لندن میں موجودہیں‘‘۔ اسی دن کے لئے تو MI-6(ر اRaw) ) معاون)نے 25سال خالص اجزائے ترکیبی پر تیار کردہ خوراک پر یہ ہٹا کٹا تیار کیا۔ وقت آگیا، ’’چڑھ جابیٹا سولی‘ رام بھلی کرے گا‘‘۔ الطاف بھائی کے افادہ عام کا وقت متعین تھا۔ بالآخر قربان ہونا تھا۔ کسی طوربھائی کی تقریر ذہنی دبائو یامدہوشی کانتیجہ نہ تھی۔تقریر بقائمی ہوش وہواس بمطابق پلان تھی۔بھائی کے بیان نے اتنا طوفان ضرور برپا کیا کہ ہمارے میڈیاکو قومی اعصاب ٹیسٹ کرنے کا موقع مل گیا۔قوم کی اعصاب شکنی میں دن رات جت چکے ہیں۔ اس میں باک کہاں؟کراچی کا حالیہ سمندری طوفان ہو یا کوئٹہ کی پہاڑیوں کا بھونچال،ایک تسلسل ہے۔ ڈانڈے بھارتی امریکی گٹھ جوڑ سے جڑتے نظر آنا‘علم نجوم نہیں۔اسی گٹھ جوڑ کی زیرسرپرستی میں کئی اور سائیڈ شو ساتھ ساتھ۔ دہشت گردی، مذہبی تکفیر و تفریق، فرقہ تفرقہ، سیاسی اکھا ڑ پچھاڑ،معاشی عدم استحکام و ابتری، لاقانونیت کی تگ ودو،سب کچھ کا ٹارگٹ ایک ہی ہے۔وطن عزیزمیں انارکی، افراتفری، باہمی تصادم کو رواج دینا۔
بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارت کی ظالمانہ ،وحشیانہ،مکروہ خباثتیں وضاحت کے ساتھ بتادی ہیں۔’’دہشت گردی عام کرکے پاکستان کی چولیںہلا دو‘‘۔ تکلیف دہ بات کہ پاکستان کے موجودہ سیاستدان بالخصوص سیاسی جماعتوں کے سربراہان، کسی نہ کسی طور بھارت کے بتائے پلان کو تھامے نظر آتے ہیں۔
الطاف حسین، اچکزئی، اسفندیارولی کا کچا چھٹا توبل بورڈ پر چسپا ں نظر آئے گا۔نوازشریف ،عمران خان، پیپلزپارٹی کے فرمودات اور واردات اجاگر کرنے کے لئے علیحدہ کالم چاہئے۔نواز شریف کی تقاریر، عمران خان کے بھارت میں دئیے گئے کرن تھاپراور دوسرے صحافیوں کو انٹرویوز ،پیپلزپارٹی کا خالصتان تحریک کو ناکام بنانے میں ممدومعاون بننا۔ پڑھ ،دیکھ، سن کر کلیجہ منہ کوآتا ہے،سرشرم سے جھک جاتا ہے۔
تازہ بہ تازہ یہی کہ امریکہ اور بھارت آج سے رسمی طورپردفاعی اتحادی بن گئے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر اور بھارتی وزیر دفاع نے کل ہی معاہدہ پر دستخط کیے ہیں،خبراچانک نہ حیران کن۔ دوسری طرف جان کیری بنگلہ دیش کے مختصر دورے کے بعد بھارت میں موجود، تزویراتی مذاکرات کے نئے راستے دریافت کرنے میں کوشاں ہیں۔ کتنی دفعہ یہی کچھ لکھا۔ باوجود یہ کہ ہماری قومی سیاسی قیادت عقل اورفہم سے عاری ہے۔ اچنبھا اتنا ہی کہ سیاستدانوں کی بھارت کے بارے میں تخیل سوچ ڈھکی چھپی نہیں رہی۔بالواسطہ یا بلاواسطہ ،شعوری یا لاشعوری طور بھارت کا کھیل وطن عزیزمیں کھل کرکھیلتے ہیں۔
کراچی کے ساحلوں سے ٹکرانے والا سمندری طوفان ہویا بلوچستان میں نہتے وکیلوں پر بزدلانہ ‘وحشیانہ ‘ دہشتگرد حملہ بھارتی دہشت گردی ہمارے سیاستدانوں کی معمولی اہلیت، صلاحیت، استعداد اور دلچسپی راسخ کر گئے ہیں۔ پاک چین راہداری منصوبے میں آنے والی تیزی اورکشمیر سے اٹھنے والی آزادی تحریک(جس کو تھرڈ جنریشن انتفادہ کا نام مل چکا ہے)، بھارت اورامریکہ کے لئے سوہان روح بن چکی ہے۔ بھارت جان چکا ہے کہ کشمیرمیں حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ تحریک آزادی کے حقوق ملکیت 13سال سے 25سال کے نوجوانوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ برہان مظفروانی کی روح لاکھوں نوجوانوں میں حلول کر چکی ہے۔ سار ے بھارتی سیاستدان ،مفکر، مصنف،دانشور متفق کہ کشمیر ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بھارت عالم فرسٹریشن میں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتا ہے۔ شیطان صفت اجیت دوول کا ڈاکٹرائن متحرک ہے۔ اقتصادی راہداری کی کامیابی اورتحریک آزادی کشمیر سے توجہ ہٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ بات درست کہ ایم کیو ایم کا اندرونی، بیرونی،باہمی قضیہ جھگڑا پھلتا پھولتا، بڑھتا چڑھتا نظر آرہا ہے۔ یقیناً بھارتی، امریکی ، برطانوی منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہے۔ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال نے بالکل ٹھیک کہاکہ ’’ 22اگست کو ہونے والاواقعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کانتیجہ تھا‘‘۔ صرف اتنا اضافہ کہ ایساسب کچھ کہناوفاقی اورصوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ سیاسی حکومتوںنے ایم کیوایم کوآڑے ہاتھوں لینا تھا، تادیبی کارروائی کرنا تھی۔بھارت اور امریکہ گٹھ جوڑ کو للکارنا تھا۔ جس لہجے اورلغت میںبھارتی موذی نے ناپاک جسارت کی تھی، اسی لب ولہجے میں جواب دینا بنتا تھا، مگر کرتا کون؟
ایم کیوایم پر عجیب بحران وافتاد ،گوشمالی اور سیاست کی ترویج بیک وقت جاری ہے۔’’ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی‘‘۔فاروق ستار روزانہ کی بنیاد پر کٹہرے میں کھڑے جبکہ وسیم اختر جیل سے آکر میئر کراچی کا حلف اٹھا چکے ہیں۔کراچی کے چیف ایگزیکٹو بن چکے ہیں،دھواں دار تقریر فرما کر جیل واپس جا چکے ہیں۔مت بھولیں کہ فاروق ستار ’’پلان بی پر عمل پیرا، مگر اندر خانے دو پلان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ فاروق ستاروکٹ کے دونوں طرف کھیلنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آصف حسنین کا استعفیٰ جیسے ہی اسپیکر تک پہنچے گا ، سیٹ پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔ایم کیو ایم کو اس سیٹ کے حصول کے لئے یقینا ایک چیلنج کا سامنا ہوگا۔اہم اتنا کہ اہالیان کراچی اپنی رائے استعمال کرتے وقت معاملے کی نزاکت اور سنگینی کو کس حد تک جانچنے میں کامیاب ہوں گے۔
اگرپاکستان کی سیاسی جماعتوں نے کراچی کی حد تک ہی نفسا نفسی اورمفاد پرستی کوترک نہ کیا ۔بصورت دیگر ایم کیو ایم آنے والے ضمنی انتخابات جیتنے میں کامیاب رہتی ہے تو پھربہت کچھ تلا جائے گا۔ ’’پاکستان‘‘ دشمن قوتیں ہمارا منہ چڑھانے میں یقیناًکامیاب ہوجائیں گی۔ کراچی میں حالیہ بلدیاتی انتخاب میں تحریک انصاف نے ن لیگ کے امیدوار کی ناکامی میں جس دھوکے، دغا کا مظاہرہ کیا، مفاد پرستی اور دھوکے کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں۔ تحریک انصاف کی مختصر تاریخ، دھوکا دہی، بے وفائی اور دغا بازی سے بھری پڑی ہے۔ 2013ء کے الیکشن میںمیانوالی کی نشست پر عمران خان نے اپنے نیچے، اپنے ہی ایم پی اے کے امیدوارجمال خان (نشا ن بلا)کو عین موقع پر دھوکا دیا، نشست سے تحریک انصاف کو ہاتھ دھونا پڑے۔ چند سو ووٹوں کے حصول کے لئے چیئرمین نے تحریک انصاف کے ووٹ آزاد امیدوارببلی خان کو ڈلوادئیے ۔ترجمان اعلیٰ نعیم الحق نے جہلم کے انتخاب پرکیا فرما گئے ،’’ جماعت اسلامی نے مخالف امیدوار کی حمایت کرکے ہماری پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا ہے‘‘۔ تضحیک آمیز اور مزاحیہ ہی تو ہے۔ جماعت اسلامی نے آپ سے کونسا معاہدہ کر رکھا تھا،جس کی پاسداری مطلوب تھی اور پھریہ بات کہہ کون رہا ہے؟آپ لوگ ہی تودھوکا دہی اوردغا کے فن میں اپنی مثال آپ ہیں۔
کراچی حیدر آباد کے معروضی حالات پچھلی لگ بھگ دو دہائیوں سے اس بات کے متقاضی کہ ساری قومی جماعتیں پاکستان کی خاطر اکٹھی ہوکر ایم کیو ایم کا مقابلہ کریں۔ ’’ رینٹ اے لیڈر‘‘ مصطفی کمال سرکے بل الٹے لٹک جائیں ، لکھ کر دے رہا ہوں ، اردو اسپیکنگ میں پنپ نہیں پائیں گے۔
آنے والے ضمنی مقابلوں میں اگر جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، ن لیگ، دینی جماعتوں کامشترکہ اتحاد اور محاذ ترتیب پا گیا تو ایم کیو ایم کا قلع قمع ہو جائے گا، وگرنہ ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے ‘‘۔
تحریک انصاف کی ترجیحات اپنی ۔ پاکستان کی چولیں ہلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ۔ عمران خان 3ستمبر کو ’’ستمگر‘‘بنانے کا نقطہ آغاز سمجھ بیٹھے ہیں۔لاہور تشریف لاتے ہی للکارتے پائے گئے، غصہ اتنا کہ ’’پانامہ لیکس‘‘ پر عوام کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوئے ۔ جناب یہ سمجھنے سے قاصر۔ وجہ اتنی کہ چیئرمین نے اپنے گریبان کے بٹن کس کے بند کر رکھے ہیں، جھانکنا گوارا نہیں۔ جب یہ الفاظ کہہ رہے تھے تو دائیں طرف جناب جہانگیر ترین اور بائیں کندھے سے جناب علیم خان کالا چشمہ لگائے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آئے۔ کانوں کے قریب بھی یہی دو صاف ، ستھرے اور شفاف کردار موجود تھے، چنانچہ ممکن تھا نہیں کہ کوئی سرگوشی کرتا کہ حضور غصہ ضرورمگر کچھ بدنام زمانہ، جانے پہچانے لٹیروں اور دولت کے مالکوں کو دوتین قدم پیچھے رکھیں گے تو بات میں وزن رہے گا۔ یہ لوگ مجبوری بن چکے ہیں جبکہ مجبوری لاچار بنا دیتی ہے۔ لاہور ہی میںلائحہ عمل دے گئے ۔ انسانوں کاسمندر اکٹھا کرنے میں دلچسپی ، ستمبر کے مہینے کو استعمال کرنے کی جلدی۔ اکتوبر میں آرمی چیف نے ریٹائرڈ ہونا ہے جبکہ دسمبر میں سپریم کورٹ کو نیا چیف جسٹس مل جائے گا، دونوں نئے بڑے چیف، نواز شریف کی مضبوط حکومت کو مزید مستحکم ہونے میں مزیدمدد ملے گی۔ساری اپوزیشن سیاسی جماعتیں شکست وریخت سے دوچار نظر آتی ہیں۔ تاریخ کا سبق کہ طاقتور نوازشریف خطرہ جان اور وہ بھی پاکستان کی جان۔ ملک کی سیاست کوکون ڈھب پر لائے گا؟پاکستان کی سیاست ڈھب پر ہوگی تو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت بھی رہے گی۔

.
تازہ ترین