• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان کے بعد اور جاپان کی دوسری جنگ عظیم میں امریکہ سے شکست کے بعد خودمختاری کی شروعات سے لیکر آج تک پاکستان اور جاپان کے تعلقات بھی مثالی رہے ہیں تاہم کئی ادوارمیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بھی پیدا ہوئی لیکن ہمیشہ ہی یہ جزوقتی رہی ،دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات میں اتار چڑھائو کے حوالے سے ایک معلوماتی جائزہ پیش خدمت ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کے ہاتھوں جاپان کی شکست کے بعد امریکی قیادت میں جاپان نے تجارتی سرگرمیاں شروع کیں تو پاکستان ان چند ممالک میں سے تھا جس نے جاپان کے ساتھ سب سے پہلے تجارتی معاہدے کئے اور جاپان کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں تعاون فراہم کیا ، جاپان کا موجودہ آئین تین مئی 1947 کو وجود میں آیا اور یہی تاریخ موجودہ جاپان کے قیام کی تصور کی جاتی ہے ،یہ وہ زمانہ تھا جب جاپان کو دنیا سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی پوری طرح آزادی نہیں حاصل ہوئی تھی لیکن جاپان صنعتی و تجارتی ترقی کے راستے کا انتخاب کرنے جارہا تھا، مئی1948میں جاپان کا پہلا تجارتی وفد أر ایٹن کی قیادت میں کراچی آیا جہاں اس نے پاکستان سے کپاس اور جوٹ درآمد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ، اس دورے کے دو ماہ بعد ہی پاکستان اور جاپان کے درمیان پہلا تجارتی معاہدہ عمل میں آیااور یہ جاپان کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی ملک سے پہلا تجارتی معاہدہ تھا ،اس معاہدے کے تحت جاپان کو پاکستان سے کپاس اور جوٹ درآمد کرنا تھی تاہم جاپان کے پاس اس وقت زرمبادلہ کی کمی تھی لہٰذا اس کے جواب میں پاکستان نے جاپان سے کپاس اور جوٹ کے بدلے ٹیکسٹائل مشینری کی درآمد شروع کردی ،اس طرح باہمی مفاد پر مشتمل دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا آغاز عمل میں لایا گیا ، اور اسی سال جاپان کی جانب سے کراچی میں پہلا ٹریڈ آفس قائم کردیا گیا تھا ،اسی سال 1948 میں پاکستان کا پہلا تجارتی وفد مرزا ابالاصفہانی کی قیادت میں جاپان گیا اور پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے جاپان کی مارکیٹ کا جائزہ لیا ،دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سفارتکاری کے آغاز کے بعد آٹھ ستمبر 1951ء کو پاکستان ان چند ممالک میں سے تھا جس نے امریکہ میں جاپان کے ساتھ سان فرانسسکو میں امن معاہدے پر دستخط کئے اور جاپان پر سے جنگی و تجارتی پابندیوں کا خاتمےکے ساتھ ساتھ جاپان کی معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات کا اعلان کیا ،جبکہ پاکستان نے جاپان کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات کا ثبوت دیتے ہوئے 1952 میں جاپان میں غذائی اجناس کی قلت کے باعث پہلی دفعہ ساٹھ ہزار ٹن چاول بطورامداد جاپان کو فراہم کئے۔ یہ ابتدا تھی ان تاریخی تعلقات کی جن کا آغاز پاکستان اور جاپان کی شروعات سے ہی ہوچکا تھا۔پاکستان نے اٹھارہ اپریل 1952ء کو میاں ضیاء الدین کو جاپان میں پاکستان کا پہلا سفیر متعین کیا جبکہ اسی سال چار ستمبر کیوشی یاماگاتو کو پاکستان میں جاپان کا سفیر تعینات کیا ،صرف یہی نہیں بلکہ اپریل 1957ء کوچاہئے پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی جاپان کا دورہ کرنے والے ایشیا کے پہلے سربراہ حکومت تھے جن کا جاپان میں شاندار استقبال کیا گیا ،جس کے ایک ماہ بعد ہی جاپانی وزیر اعظم نوبوسوکے کیشی نے پاکستان کا دورہ کیا جو کسی بھی جاپانی وزیر اعظم کا دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیا کے کسی بھی ملک کا پہلا دورہ تھا ،تاہم اس دورے میں دونوں ملکوںکے درمیان چند امور پر اختلافات بھی سامنے آئے ، کیونکہ جاپانی وزیرا عظم نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی حمایت سے گریز کیا ، چین پالیسی پر بھی دونوںممالک میں اختلاف ہوا ،جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے قیام پر بھی پاکستان نے پہلے جاپان سے تمام ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانےپر اصرار کیا تھا ، لیکن پھر بھی پاکستان اور جاپان نے امریکہ کے اہم اتحادی کے طورپر بہتر تعلقات کے قیام پر زوردیا ،اس دورے کے چند سال بعد بارہ سے انیس دسمبر 1960پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا ، یہ دورہ اس زمانے میں جاپان کاکسی بھی ملک کے سربراہ مملکت کا پہلا گرینڈ دورہ قرار دیا جاتا ہے ، اس دورے کی دعوت صدر ایوب کو جاپان کے شہنشاہ ہیروہیتو نے دی تھی ،صدر ایوب کو جاپان میں شہنشاہ جاپان سمیت وزیر اعظم اور جاپان میں امریکی افواج کے سربراہ سمیت تمام ہی اہم شخصیات نے خوش آمدید کہا اور انھیں کئی مقامات پر گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا، صدر ایوب کے اس دورے کے جواب میں جاپانی وزیر اعظم ہیاتو اکیدا نے سترہ سے بیس نومبر 1961کے دوران پاکستان کا دورہ کیا اس دورے میں پہلی دفعہ جاپانی حکومت نے پاکستان کو بیس ملین ین بطور قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا جو کہ انتہائی آسان شرائط پر تھا جس سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ،تاہم ایسا نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ ہی تعلقات مثالی رہے ہوں، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں تعلقات میںسردمہری بھی پیداہوئی ،جس کی اہم وجوہ میں پاک چین قریبی تعلقات اورپاکستان کی ایک چین پالیسی تھی جبکہ بنگلہ دیش کے قیام میں جاپان کی جانبدارانہ پالیسی کابھی عمل دخل رہا ہے ،مزید سرد مہری اس وقت پیدا ہوئی جب جاپان نے پاکستان کی قومی ائیرلائن کو جاپان میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سول ایوی ایشن ایگریمنٹ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ،اس معاہدے میں پاکستان نے چین کے شہر سے پی آئی اے کے لئے جاپان میں داخلے کی اجازت طلب کی تھی ، جاپان کے اس فیصلے نے پاکستان کو کمیونسٹ بلاک اور چین کے ساتھ مزید قریب کردیا ، پھر ستر کی دہائی میں بنگلہ دیش کے معاملے پر جاپان نے اپنی این جی او ریڈ کراس جسے سیکی جوجی بھی کہا جاتا ہے کے ذریعے بنگلہ دیش سے کلکتہ ہجرت کرنے والے بنگالیوں کی کھل کر مدد کی اور بنگلہ دیش کے مسئلے کو پاکستان کے نقطہ نظر سے ہٹ کر بنگالی قوم کے مسئلے کے طور پر دیکھا اور انکی کھل کر حمایت بھی کی جبکہ پاکستان کے موقف کے مطابق جاپان نے ویت نام اور کشمیر کے مسئلے کو کبھی اس نظریے سے نہیں دیکھا جس نظریے سے اس نے بنگلہ دیش کے مسئلے کو دیکھا تھا ، اسی طرح بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران جاپان نے ڈھاکہ میں اپنا قونصلیٹ بند کردیا اور دس فروری 1972کو بنگلہ دیش تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ، پاکستانی موقف کے مطابق جاپان نے پاکستان کی جانب سے کسی بھی فیصلے سے دو ماہ قبل ہی بنگلہ دیش کو تسلیم کرکے پاکستانی موقف کو کمزور کردیا تھا ، جاپان کی جانب سے پاکستان کو دیئے گئے قرضوں میں اڑتالیس فیصد مشرقی پاکستان کو دیا گیا تھا جسے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستانی حکومت نےادا کرنے سے انکار کردیا یہ بھی دونوں ممالک کے درمیان مزیدسرد مہری کی ایک وجہ بنا ،لیکن بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی تھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک بار پھر مثالی بہتری پیدا ہوئی۔ قسط نمبر دو میں ملاحظہ کریں۔

.
تازہ ترین