اللہ تعالیٰ ان تمام نقادوں کی مغفرت کرے جو وفات پا چکے ہیں اور ان سب کو توفیق دےجو حیات ہیں کہ وہ اپنی ذات پسند کے لکھاریوں کو چاہے سو میں سے سو نمبر دے دیں۔ لیکن یہ تاثر نہ دیں کہ ان کے بعد ادب کے دروازے بندھ چکے ہیں چنانچہ اب یہاں کوئی نہیں،کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا، جن نقادوں کا میں ذکر رہا ہوں، ان کے پسندیدہ شاعر میرے بھی پسندیدہ شاعر ہیں، انہوں نے ان کی تعریف میں کچھ زیادہ مبالغہ سے کام نہیں لیا، لیکن میرے یہ دوست مقبولیت سے بہت الرجک ہیں، جو شاعر چاہے اپنے اعلیٰ درجے کے کلام سے عوام اور خواص دونوں میں مقبول ہو جائے یہ اسے اپنی ’’کلاس‘‘ سے نکال باہر کرتے ہیں، احمد فراز کے ساتھ بعض نقادوں نے تقریباً یہی سلوک کیا ہے۔
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
آپ شاعری کے ذکر اذکار میں فراز کا حوالہ نہ دیں مگر یہ حوالہ دلوں میں اور تاریخ میں تو موجود رہے گا، میں فراز کی مزاحمتی شاعری کا ذکر نہیں کرتا کہ اس میں تو حبیب جالب بھی کسی سے کم نہیں، مگر فراز کی دوسری شاعری بہترین لفظ کے بہترین انتخاب کا اعلیٰ نمونہ ہے، شاعر یہی کام تو کرتا ہے، اسے اپنی بات کہنے کے لئے لفظ درکار ہوتے ہیں، اس نے ان لفظوں کو صرف ان کے صحیح مقام پر رکھنا ہوتا ہے اور فراز یہ ہنر جانتا تھا اس کی ادبی نشوونما اردو اور فارسی کی کلاسیکی شاعری کی گود میں ہوئی تھی، جواس کے بہت کام آئی اور اب اس کے بعد آنے والی نسل اس کی پیروی کی کوشش میں مشغول ہے مگر اس نسل کا المیہ یہ ہے کہ اردو کی کلاسیکی شاعری تو شاید اس کی نظروں سے گزری ہو، مگر فارسی شاعری سے یہ نسل عمومی طور پر محروم ہے یہ نسل رومانی شاعری کرتی ہے اور بہت عمدہ کرتی ہے لیکن رومانی شاعری میں فراز نے جو مردانہ، انا کا حسن شامل کیا وہ اسی کا حصہ ہے۔
تاہم یاد رکھیں احمد فراز اپنی رومانی شاعری نہیں، اپنی ’’شاعری‘‘ کی وجہ سے زندہ ہیں، اس نے جو کچھ بھی کہا ہے، شاعری میں کہا ہے اور ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ میں فراز پر کوئی مقالہ لکھنے نہیں بیٹھا بلکہ آپکے ساتھ ڈاکٹر صبیحہ صبا کی وہ نظم ’’شیئر‘‘ کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے گزشتہ ماہ فراز کی برسی کے حوالے سے کہی۔ اعلیٰ شاعر کو خراج تحسین بھی اعلیٰ درجے کی شاعری ہی سے پیش کیا جاسکتا ہے اور یوں صبیحہ صبا نے خراج تحسین کا حق ادا کردیا ہے، میں صبیحہ کی نظم اور آپ کے درمیان میں سے نکلنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سب صبیحہ کے ساتھ مل کر پورے سکون سے فراز کو یاد کرسکیں۔
چلو جانا تو سب کو ہے مگر پھر بھی یہ لگتا ہے ذرا جلدی نہیں کردی
بہت سے کام ہونا تھے
ابھی تو شوق کے آہوئے وحشت کو تجھے زنجیر کرنا تھا
زباں کو تیر کرنا تھا
سنہرے خواب کو تعبیر کرنا تھا
تجھے اے بھولنے والے!
ابھی تو اپنی ’’ضدی نظم‘‘ سے عفریت استبداد کو ’’محصور‘‘ کرنا تھا
شب تاریک کو پرنور کرنا تھا
ابھی سہمے ہوئے لوگوں کے دل سے خوف، آنکھوں سے اندھیرا دور کرنا تھا
بہت سے کام باقی تھے!
ابھی تو ذہن کے آنگن میں غزلوں کی نئی رنگین پریاں ناچتی گاتی اترنا تھیں
تجھے فرصت نہ تھی، ان سے مگر باتیں تو کرنا تھیں
مگر تو کم سخن اپنی ہی مرضی کا
ابھی تو گیسوئے اردو کو سلجھانا بھی باقی تھا
ابھی تو کاکل پیچان فن میں، شانہ معنی کو الجھانا بھی باقی تھا
ابھی تو اک نئی فرہنگ لکھنا تھی
ابھی تو داستان نغمہ و آہنگ لکھنا تھی
گلوں کے مشورے سے شرط کسب رنگ لکھنا تھی
صبا کے سنگ لکھنا تھی
مگر توحیلہ گر اپنی ہی مرضی کا!
ابھی تو دوستوں کے ساتھ کچھ ہنسنا ہنسانا تھا
انہیں سننا سنانا تھا
ابھی تو حسب وعدہ حافظ و سعدی پہ کوئی بات ہونا تھی
زبان پہلوی کے کچھ نئے پہلو دکھانا تھے
متاع غالب و بیدل سے کچھ بٹنا بٹانا تھا
بہت سے کام باقی تھے
ابھی تو سیکھنے والے، تری محفل کے متوالے، گھروں سے آنے والے تھے
ابھی تو دور افتادہ جزیروں پر، تری آمد کا پھر سے جشن ہونا تھا
کسی کو نیند آنا تھی، نہ اتنی دیر تک جاگے ہوئے لوگوں کو سونا تھا
ابھی تو سال خوردہ، نوجواں، بچے،
دیار غیر میں رہ کر وطن کو یاد کرنا چاہتےتھے
تری نظمیں تری غزلیں، براہ راست بس تجھ سے ہی سننا چاہتے تھے
نگاہ دل میں تجھ کو بے وفا!
آباد کرنا چاہتے تھے
ذرا سی دیر آنکھوں کو مزین
ذہن و دل کو شاد کرنا چاہتے تھے
مگر تو بادشاہ اپنی ہی مرضی کا!
ادھرآیا کوئی پیغام رنگیں
اور تو محفل سے اٹھ کر دوسری جانب چلا
آتا تو کچھ سرگوشیاں ہوتیں
نئی کچھ جنتری بنتی
مگرتجھ کو تو پہلی ممکنہ پرواز سے جانا ہی ہوتا تھا
ستم ڈھانا ہی ہوتا تھا
نئے قریے، نئے کوچے، نئے احباب
تیری دید کے مشتاق جو ٹھہرے
تیرے عشاق جو ٹھہرے
بہانہ جو کہیں کا!
تجھے اے زودگر
یونہی سحر کو شام کرنا تھا
ذرا آرام کرنا تھا
تجھے جلدی بہت تھی میکدے سے اٹھ کے جانے کی
تو ٹھہرا بادہ کش اپنی ہی مرضی کا
تجھے خالی یونہی اس زندگی کا جام کرنا تھا
مگر پھر بھی یہ لگتا ہے
ذرا جلدی نہیں کردی!
ڈاکٹر صبیحہ صبا نیویارک