• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیت میں کھوٹ بھرا ہو تو کھرا کام بھی کھوٹا ہو جاتا ہے جیسے ہماری بظاہر بے حد خوشنما آئینی ترامیم بھی عوام کے خلاف ہی گئی ہیں۔ بظاہر تو تیسری بار وزیراعظم بننے سے کوئی قیامت نہیں آ جاتی لیکن ہم جیسے حالات میں یہ زہر قاتل سے کم نہ تھا لیکن لے دے کر چیمپئن مافیا متفق ہوگیا۔ اسی طرح صوبوں کی خصوصاً مالی خودمختاری بظاہر معصوم لیکن عملاًشیطانی کاروبار کہ ہماری سیاسی بُنت ہی ایسی ہے کہ اگر مرکز نہ ملا تو صوبہ بہرحال کہیں نہیںگیا لیکن بھرپور مالی وسائل کے بغیر صوبہ چاٹنا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے گودے کے بغیر آم یا کباب کے بغیر کباب کی سیخ۔ پنجابی میں ایک عوامی قسم کی اصطلاح ہے ’’مطمئن بے غیرت‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر عوام دشمن واردات پر عوام یا جمہوریت کے وسیع تر مفاد کا لیبل چپکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ماضی قریب کی دونوںمین سٹریم پارٹیوں کی قیادت فرشتوں نہیں تو مان لیا کہ اولیا ءپرضرور مشتمل ہوگی لیکن دونوں کی عمریں ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کرنے میں بیت گئیں۔ بیرون ملک بھی ان کی ’’پارسائی‘‘ پر بڑے مضمون باندھے گئے لیکن نتیجہ؟؟؟؟ احتسابی ادارہ کا سربراہ انہی دونوں کے درمیان اتفاق رائے سے فائنل ہوگا یعنی ملزمان ہی فیصلہ کریں گے کہ ان کا تفتیشی اور جج کون ہوگا۔ انتہا یہ کہ اب تو چودھری شجاعت تک کوکہنا پڑا کہ پورا پورا خاندان پاکستان کی گردن پر سوار کرنے کی کھلی چھٹی دینے پر غور ہونا چاہئے۔بیوروکریٹ + کالم نگار ذوالفقار چیمہ کی دیانت پولیس افسر ہونے کےباوجود ضر ب المثل تو ظاہر ہے فکری بددیانتی کابھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سسٹم کے DNA میں گھسا ہوا یہ شخص بھی اس جمہوریت کی ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھ کر یہ ماتم ’’لکھنے‘‘ پر مجبور پایا جاتاہے کہ.....اول: کسی بھی جمہوری ملک میں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کاتصور ہی ممکن نہیں..... لیکن سیاسی آمریتوں نے ’’طاقت کا ارتکاز‘‘ یقینی بنانے کےلئے بلدیاتی نظام پر کبھی تھوکنا بھی پسند نہیں کیا کیونکہ ان کی جمہوریت دراصل فرعونیت، نمرودیت اور شدادیت سے کم نہیں اور یہ کسی قیمت پر عوام کو اقتدار میں شریک اور اپنے مکروہ پنجوں سےآزاد نہیںدیکھ سکتے لیکن کب تک؟ یہ 100چھتر بھی کھائیںگے 100پیاز بھی اور پھر ہی باز آئیں گے۔ اس سے بھی آگے کہ ان کےتو اپنے اندر جمہوریت کاوجود نہیں۔دوم:یہاںپھر ’’ذوالفقار‘‘ 18ویں ترمیم کی منافقت کو بے رحمی سے کاٹتی چلی جاتی ہے کہ یہ کتنا مضحکہ خیز قانون ہے کہ قومی اسمبلی میںقائد ایوان اور قائد حزب اختلاف مل کر (ملی بھگت سمجھیں ) چیئرمین نیب کا انتخاب کریں گے۔ FIA کو وزارت ِ داخلہ کی باندی بنا دیا گیا ہے اور ’’نیب‘‘ کاتو سربراہ ہی ان کے سامنے سرنگوں ہوگا تو بھلا کرپشن کےگریبان میںہاتھ کون ڈالے گا؟ سو عملاً ’’نیب‘‘ بھی اس شیر کی مانند ہے جس کے جبڑے اور پنجے نکالے جاچکے۔ اگر حکمرانوں کے ضمیر زنگ آلود نہیں تو FIA کو انڈیا کی CBI کی طرح آزادکریںاور نیب کا چیئرمین سرچ کمیٹی کے ذریعے مقرر کیا جائے۔اک اور ’’حماقت‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ.....انتخابات کا انعقاد ، دھاندلی کی اقسام سے واقفیت اور انہیں روکنا عدالتی نوعیت و ہئیت کا کام ہی نہیں ہے کہ منصفوں کا مزاج، ماحول، کام، تجربہ ہوتا ہی اور قسم کا ہے سو چیف الیکشن کمشنر کے لئے ریٹائرڈ جج کی شرط پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ یہاں سول سروسز میں سے کسی نیک نام، سخت گیر، نیوٹرل شخص کی ضرورت ہوگی جس کی کمٹمنٹ کسی پارٹی نہیں صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہو۔ بنکوں سے اپنے یااہل خانہ کے نام پر قرضہ لے کر کھانے یا معاف کرانے والے، کمیشن کک بیک کھانے والے، جانی پہچانی ٹیکس شدہ آمدنی سے مختلف لائف سٹائل گزارنے والے، اثاثے، کاروبار بیرون ملک رکھنے والے گند کو سیاست سے فارغ کیاجائے۔برادری ازم اور دولت کا زور توڑنے کےلئے ضروری ہوگا کہ پارلیمینٹ کی آدھی نشستیں متناسب نمائندگی کے ذریعے پر کی جائیں تاکہ کم وسائل رکھنے والے افراد بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔کاش گلا سڑا بدبودار کریمنل جسٹس سسٹم بھی تبدیل ہوسکے۔ جس جسٹس سسٹم کو بااثر اپنے حق میں بہ آسانی استعمال کرسکے اور مظلوم کبھی انصاف نہ پاسکے۔ اس سے چمٹے رہنا کیوں ضروری ہے؟یہ وہ موضوعات ہیں جن پر ہر دانشور کو قلم اٹھانا چاہئے اور عمران خان تا ڈاکٹر طاہر القادری ہر جینوئن لیڈر کو ان حوالوں سے عوام کو ایجوکیٹ کرنا چاہئے تاکہ ان غلاظتوں سے پاک کرکے پاکستان کو سچ مچ کا پاکستان بنایا جاسکے۔
تازہ ترین