• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور ہمیشہ خصوصی شفقت فرماتے، جہاں ضروری سمجھتے اپنے مخصوص محتاط اور دھیمے لہجے میں راہنمائی کرتے مثلاً ایک بیحد سینیئر نامور صحافی کی موت پر میںنے مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ آپ نے ساری زندگی کرائے کے گھر میں گزار دی۔ حقانی صاحب کا فون آیا کہ ’’جب کبھی ’’جنگ‘‘ کے آفس آنا ہو، مجھ سے ملے بغیر نہ جائیں‘‘۔ چند ہفتوں کے بعد جانا ہوا تو حقانی صاحب کے پاس سلام کیلئے رکا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد اپنی مخصوص نشست سے اٹھ کر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر سرگوشی کے سے انداز میں کہنے لگے ...... ’’فلاںصاحب کی وفات پر آپ کا کالم لاجواب تھا۔ اپنے سینیئرز کیلئے ایسا احترام اب کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ایک جگہ آپ سے چوک ہوگئی، اگر آپ برا نہ منائیں تو نشاندہی کروں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ حکم کریں‘‘ تو بولے ...... ’’آپ نے اس بات کو غیر ضروری طور پر اہمیت دی اور گلوری فائی کیا کہ موصوف نے ساری زندگی کرائے کے گھر میں گزار دی تو حسن نثار صاحب! یہ درویشی نہیں غیر ذمہ داری ہے۔ ہر ذمہ دار باپ کا اولین فرض ہے کہ اگر افورڈ کرسکے تو اپنی اولاد کیلئے چھت ضرور مہیا کرے کہ عمدہ تعلیم اوراچھی تربیت کے بعد یہ بھی ہر باپ کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر افورڈ ہی نہ کرسکے تو وہ اور بات ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور موقعہ پر میں نے کوئی ’’پیش گوئی‘‘ فرماتے ہوئے یہ بڑھک بھی مار دی کہ اگر میں غلط ثابت ہوا تو کالم نگاری ترک کردوں گا۔ اس پر بھی حقانی صاحب نے سرزنش کرتے ہوئے سمجھایا کہ ...... ’’اس طرح دو ٹوک بات کرنے سے پرہیز کیا کریں، تھوڑا مارجن رکھ کر بات کیا کریں، آپ تو خود پر فرار کا ہر دروازہ بند کر کے بالکل ہی بلیک اینڈ وائیٹ میں لکھتے ہیں اور گرے ایریاز کو خاطر میں ہی نہیں لاتے جو دانشمندی کے خلاف ہے‘‘۔ سچ یہ کہ میں قائل تو ہوگیا لیکن اپنے مزاج کی وجہ سے کبھی اس مشورہ پر عمل نہ کرسکا۔ ’’اگر مگر چونکہ چنانچہ‘‘ کے ساتھ گول مول بات کرنا میرے بس میں ہی نہیں سو یہی کچھ میں نے جاوید ہاشمی کے حوالہ سے کیا۔ میرے اکثر دوست اور ساتھی معرکہ ملتان پر سارے مارجن رکھ کر بیحد محتاط سے تبصرے فرما رہے تھے جبکہ میں اپنی افتاد طبع کا عمر قیدی بضد تھا کہ ...... ’’بدترین ہزیمت ہی جاوید ہاشمی کا مقدر نہیں، یہ الیکشن اس کی سیاست کا آخری ایپی سوڈ بھی ثابت ہوگا‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔
معرکہ ملتان جاوید ہاشمی کے سیاسی زوال کی انتہا تو ہے ہی لیکن ن لیگ کے سیاسی زوال کی ’’باقاعدہ‘‘ ابتدا بھی ہے اور اگر ن لیگ کی ’’خاندانی‘‘ قیادت نے اپنے رویوں کو Revisitنہ کیا، اپنے انداز اور اسلوب میں بنیادی اور جوہری تبدیلیوں کا جتن نہ کیا تو یہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح قصہ پارینہ سے کم نہ ہوگی کہ اگر پی پی پی جیسی گراس روٹ لیول پارٹی اس بری طرح لیول ہوسکتی ہے تو ن لیگ کی کیا حیثیت؟ پیپلز پارٹی کے پاس تو پھر سندھ تھا، ان کے پاس جاتی عمرے کے سوا کیا ہے؟ اس جاتی عمرے پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے اور کیا یہ جاتی عمرے کیلئے مقام عبرت نہیں کہ پی پی پی امیدوار کا کہیں ذکر تک بھی نہ تھا۔ وہ بیچارہ Also Ran کا اعزاز بھی حاصل نہ کرسکا، ماضی کی مقبول ترین پارٹی کا امیدوار تیرھواں کھلاڑی بھی نہ نکلا۔ گیلانی جو بھی کہانی سناتا رہے، حقیقت یہ کہ یہاں پیپلز پارٹی کی کہانی ختم سمجھو کہ یہ سندھ ہی بچالیں تو بڑی بات ہوگی۔ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ سے کام نہیں چلے گا کہ اس نعرے کا سلیس ترجمہ یہ ہےکہ ...... ’’مرسوںمرسوں ڈلیور نہ کرسکوں‘‘ اور اب جو ڈلیور نہیں کرے گا، اس کی ڈلیوری نہیں، اسقاط ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک یعنی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اگر ثابت قدم رہے، بلنڈرز کے مرتکب نہ ہوئے تو یہی دو سیاسی مستقبل کے مراکز ہوں گے۔ کوئی جھک گیا یا بک گیا، ڈرگیا یا مر گیا تو اور بات ہے۔
بات ہورہی تھی جاوید ہاشمی کی جس کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ "Once a student leader, always a student leader."
جاوید ہاشمی آج تک سٹوڈنٹ لیڈری یعنی ایجی ٹیٹری سے ہی باہر نہیں نکلا اور اب نکلنے کی عمر بھی نہیں۔ چاہتا تو اپنی آخری اننگ کو بہت ہی باعزت طریقہ سے گزار سکتا تھا۔ خود اس کا اپنا بیان ہے کہ عمران خان نے اسے بہت عزت دی بلکہ اتنی عزت، جتنی کسی اور نے کبھی نہ دی تو شاید عزت راس نہ آئی بلکہ اس کی بدہضمی ہوگئی جس پر مجھے اک عجیب قسم کا ملال ہے۔
رہ گئے وہ مہربان جو جاوید ہاشمی کی احمقانہ غدارانہ سیاست کو اصول کی سیاست بتا رہے ہیں تو پیغمبروں کی سیاست کے علاوہ انسانی تاریخ میں اصول کی سیاست مجھے تو کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اصول اور سیاست تو ایک دوسرے کی ضد ہیں، مستثنیات تو خالص سائنس میں بھی روا ہیں اور یہاں تو جاوید ہاشمی کے بیانات و الزامات ہی بیحد بھونڈے اور بے تکے تھے۔ سیاست میں ’’اصول‘‘ کا بھی کوئی ’’اصول‘‘ ہوتا ہے۔
ڈگری یافتہ بھی نیم خواندہ ہوتے ہیں تو جاوید جب ’’جمہوریت‘‘ کی بات کرتا ہے تو نیم خواندہ بھی خام ساہی دکھائی دیتا ہے۔ کوئی فاتر العقل ہی ’’پاکستانی جمہوریت‘‘ کو جمہوریت قرار دے سکتا ہے۔ کیا آصف زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن ’’جمہوریت‘‘ ہے ...... ہے تو اٹھا لو پاندان اپنا۔
اس ملک میں جمہوریت ہوتی تو جمہور یعنی عوام کا آج یہ حال نہ ہوتا کہ میں جمہوریت کو جمہور کی حالت زار کے تناظر میں دیکھنے کے علاوہ اور کسی طریقہ سے دیکھ ہی نہیں سکتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں، پاکستانی ’’جمہوریت‘‘ چند خود غرض خاندانوں کی سول آمریت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
تازہ ترین