کراچی (تجزیہ :مظہر عباس) متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی فی الحال پاکستان کے مدنظر نہیں ہے لیکن کیا حکومت غدّاری کے مقدمات کے لئے ان کی پاکستان ہوالگی پر غور کر رہی ہے یا برطانوی حکومت کی جانب سے تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں ان پر پابندی لگنے کی صورت ہی میں مطمئن ہو جائے گی۔ یہ الزام ثابت ہوا تو الطاف حسین کو چند برسوں کے لئے جیل جانا بھی پڑ جائے گا۔ جنوری 1992ء میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد الطاف حسین آج پہلی بار پاکستان سے مکمل طور پر منقطع ہوئے ہیں۔ 2013ء کے بعد کی اسٹیبلشمنٹ اور خود ان کی جماعت ایم کیو ایم اب مختلف ہیں۔ پارٹی رہنماء ان کے خطابات سے ناخوش ہیں ان کی تقاریر نے پارٹی کو شدید دبائو اور کارکنوں کو مصیبت میں ڈال دیا۔ 22 اگست 2016ء کو الطاف حسین کے خطاب اور پاکستان مخالف نعروں کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر ہی ان کا پاکستان سے رابطہ منقطع ہو گیا اور اب انہیں اسی کیفیت کا سامنا ہے، گوکہ پاکستان میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ شاید ان کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا سبب بن جائے جو 1970ء کی دہائی کے آخر میں متوسط طبقے کے طالبعلم رہنماء سے برطانوی شہری بننے تک محیط ہے۔ اس دوران انہیں غیرمعمولی حمایت حاصل رہی، لیکن وہ تبدیلی کو سمجھنے اور پڑھنے میں بُری طرح ناکام رہے اور آج انہیں اس کے نتائج کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں بھی تبدیلی واقع ہوگی؟ گروپ بنانے یا لسانی و فرقہ وارانہ گروہوں کو فروغ دینے سے یا کالعدم تنظیموں کی حوصلہ افزائی کے منفی نتائج نکلے اور ریاست کو خطرات لاحق ہوئے۔ حکومت میں بعض حلقوں کی رائے میں غدّاری کا مقدمہ قائم کرنے کے اُلٹے نتائج برآمد ہوں گے اور اس سے ایک پنڈورا بکس کھل سکتا ہے۔ لہٰذا برطانوی حکومت کا کوئی فیصلہ آنے تک اسے مؤخر رکھنا چاہئے۔ وہ الطاف حسین کو ٹرائل کے لئے پاکستان لانا نہیں چاہتے۔ فی الحال پاکستان میں صورتحال یہی ہے۔ ایسی ہی تاخیر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں بھی ہوئی حالانکہ لندن میں ان کے قتل کے تینوں ملزمان چند دنوں بعد ہی پکڑے گئے۔ ان کی گرفتاری ظاہر کرنے میں حکومت نے کیوں تاخیر سے کام لیا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ اس کے برخلاف ایم کیو ایم کے کیس میں الطاف حسین نے خود اپنے آپ کو دیوار سے لگایا۔ اب وقت ہے کہ وہ اپنی سیاست پر نظرثانی کریں اور اس پر اپنے آپ ہی کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ 1987ء سے 2013ء تک مہاجروں کی اکثریت نے ’’جئے الطاف‘‘ کے لئے ہی ووٹ دیئے، وہ اب ایک صدمے کی کیفیت میں ہیں لیکن ایم کیو ایم پاکستان الطاف حسین سے اپنے پورے تعلق کوتوڑنے میں کامیاب رہی۔ اس کی وجہ سے اس نے کچھ سکون کا سانس لیا ہوگا۔ قانون کے تحت الطاف حسین کو غدّار قرار دیا جانا ابھی باقی ہے، لیکن اپنا سحر کھو دینے کی کیا وجہ رہی، اس کا جواب انہیں خود تلاش کرناہوگا۔ یہ جائزہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ 2013ء سے 2016ء تک تین سال کے دوران وہ کس طرح پارٹی کے اندر اور باہر اپنی کشش کھو بیٹھے۔ میڈیا میں ان پر پابندی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی سیاسی جماعتوں سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ خود ان کی جماعت نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بادی النظر میں غدّاری کے مقدمے کے لئے موزوں ترین کیس ہے لیکن ابھی یہ ایم کیو ایم پر پابندی کا حوالہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کیس غدّاری کے حوالے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا جس میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے معاملات بھی شامل ہوں گے۔ جس کا الزام اپوزیشن جماعتوں کے بعض رہنمائوں پربھی ہے۔ سندھ رینجرز اور ملک کے اعلیٰ انٹلی جنسادارے اب اس بات کے قائل ہیں کہ 1992ء کے آپریشن کے بعد سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم عسکری ونگ کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے رابطے رہے ہیں لیکن سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 9 سالہ دور میں یہ رابطے منقطع رہے۔ اس وقت تقریباً 600 مبینہ عسکریت پسند رینجرز کی تحویل میں ہیں۔ اکثر نے ’’را‘‘ سے تعلق کے حوالے سے ’’اعترافی بیانات‘‘ بھی دیئے ہیں، لہٰذا حکومت یا ریاست چاہے تو یہ قانون کے تحت الطاف حسین کے خلاف غدّاری کا مقدمہ قائم کرنے کے لئے مضبوط کیس ہے، اب یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، حکومت کی اس حوالے سے سیاسی مضمرات پر بھی نظر ہے، جیسا کہ ماضی میں انتہائی غدّاری کے مقدمات کا حشر ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت الطاف حسین پر مقدمہ قائم کرنے سے کیوں بچنا چاہتی ہے؟ ہو سکتا ہے اس کی وجہ ماضی میں الطاف حسین کے نہ صرف وزیراعظم نوازشریف بلکہ پیپلزپارٹی سے بھی تعلقات اوریقیناً سیاسی محاذ پر اس حوالے سے کئی راز ہوں۔ مقدمہ چلے تو الطاف حسین بہت کچھ بول سکتے ہیں۔ جس سے شاید انہیں کوئی سہولت نہ مل سکے، لیکن اس سے ’’چھپے چہرے‘‘ سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کے متحدہ قومی موومنٹ پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے ’’پاکستان باب‘‘ نے الطاف حسین اور ان کے لندن سیکرٹریٹ سے ناطہ رشتہ توڑ لیا ہے۔ یہ مستقل بنیادوں پر ہو سکتا ہے اور یہ قطع تعلق لندن سیکرٹریٹ کی بندش پر منتج ہو سکتا ہے تاہم اس کا انحصار اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات میں پیش رفت پر ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ان ذرائع کے مطابق وہاں کچھ پارٹی رہنماء خاموشی سے پارٹی کو خیرباد کہہ کر برطانیہ ہی میں آباد ہو جانا چاہتے ہیں یا پھر وہ ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت میں سامنے آ جائیں۔ بعض رہنماء پاکستان سرزمین پارٹی لندن ونگ سے بھی رابطوں میں ہیں۔ الطاف حسین کا معاملہ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بگڑنا شروع ہوا جب پہلی بار وزیراعظم نوازشریف اور نہ ہی پیپلزپارٹی کے رہنماء سابق صدر آصف علی زرداری نے انہیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ رائے ونڈ یا بلاول ہائوس سے کال کے انتظار میں وہ اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے نائن زیرو پر پارٹی کا جنرل باڈی اجاس طلب کرلیا اور پاکستان میں پارٹی رہنمائوں پر خوب گرجے اور برسے۔ اس تقریر کے بعد کیا ہوا اب یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ وہ پاکستان میں سیاست کے زمینی حقائق سے کٹے رہے۔ اس بات نے انہیں بے حد مایوس اور تنہا کیا اور جب ستمبر 2013ء میں رینجرز نے اپنا آپریشن شروع کیا تو انہوں نے صورتحال کو سمجھنے میں غلطی کی۔ جنوری 2015ء میں اپنے ایک خطاب کے بعد الطاف حسین کو ایک سخت پیغام دیا گیا کہ اس سے قبل دیر ہو جائے وہ رُک جائیں اور باز آ جائیں۔ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے اسٹیبلشمنٹ سے بہترین تعلقات رہے کیونکہ وہ ایک اندرونی آدمی ہونے کے ساتھ 2002 ء سے گورنر کے عہدے پر قائم رہنے کے باعث کراچی کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں، لہٰذا جب الطاف حسین نے ایک غیرضروری چارج شیٹ کے ذریعہ گورنر کو خارج کر کے انہیں کھو دیا تو درحقیقت انہوں نے ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ سے بھی اپنے تمام رابطے کھو دیئے۔ عشرت العباد ایک ’’پل‘‘ کا کام کر رہے تھے اور ایم کیو ایم کے رہنماء نے انہیں اس صورتحال میں دھکیلا تو انہیں کہنا پڑ گیا کہ انہوں نے نہیں بلکہ پارٹی نے انہیں چھوڑا ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد الطاف حسین کو مسلسل آگاہ کرتے رہے کہ اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے خلاف اپنی تقاریر بند نہ کیں تو نہ صرف ان پر پابندی لگ سکتی ہے بلکہ ایم کیو ایم کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہ رُکے نہیں۔ صولت مرزا کے سنسنی خیز انکشافات کے بعد پہیہ گھومنا شروع ہوگیا، اس کے بعد ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس نے زور پکڑا اورگرفتار تینوں ملزمان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا۔ ڈاکٹر عشرت العباد پر الطاف حسین کا عدم اعتماد اس وقت سامنے آیا جب گورنر نے انہیں طاہرالقادری اور اس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری سرور کے انہیں پیغام کے باوجود دھرنے میں شامل ہونے کے خلاف مشورہ دیا۔ ان لوگوں کے خیال میں ایم کیو ایم اگر دو دنوں کے لئے کراچی بند کر دے تو حکومت گر سکتی ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا عروج پرویز مشرف کے 9 سال دور اقتدار میں دیکھنے میں آیا۔ یہ بھی ایک وجہ رہی کہ بعض پارٹی رہنمائوں کے مشورے کے باوجود ایم کیو ایم مبینہ طور پر سانحہ 12 مئی 2007ء میں ملوث ہوئی کیونکہ پرویز مشرف چاہتے تھے اس وقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جلوس کو کسی طور روکا جائے۔ 2008ء میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک سے خوشگوار تعلقات کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنی سودے بازی کی پوزیشن کھو دی۔ کون غدّار اور کون محبّ وطن، یہ پاکستان میں پرانی بحث ہے۔ ’’سیاست دان‘‘ ہی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ جنرل (ر) ضیاء الحق پر ایم کیو ایم کی تخلیق کا الزام ہے جنہیں علیحدگی پسند سندھو دیش تحریک کی پشت پناہی کا الزام بھی جاتا ہے اور انہوں نے اس تحریک کے بانی جی ایم سید مرحوم کو بھی استعمال کیا جنہوں نے پاکستان توڑنے کے اپنے عزائم کو کبھی نہیں چھپایا، حالانکہ وہ 1947ء میں سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والوں میں شامل رہے۔ وہ خود پر مقدمہ قائم کئے جانے کے لئے بھی تیار رہے اور اعترافی بیان بھی تیار کرلیا تھا لیکن موت نے انہیں مہلت نہ دی۔ ضیاء الحق نے جی ایم سید کو استعمال کیا۔ بعدازاں 1977ء سے 1988ء تک ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال ہوئی۔ ایک بار جی ایم سید اور الطاف حسین نے آپس میں ہاتھ ملائے اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کے کارکنوں کو تربیت بھی فراہم کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور ہزاروں کارکنوں کو بھی ’’را‘‘ سے تعلق اور ملک دشمنی کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں اس پالیسی کو سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی مرحوم نے جاری رکھا۔ پاکستان میں تاریخی اعتبار سے دو سیاسی جماعتوں پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندیاں لگیں۔ یہ پابندی 1950ء اور 1970ء کی دہائیوں میں کمیونسٹ پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی پر لگیں۔ الطاف حسین جو پہلے ہی خود کو، اپنی سیاست اور پارٹی کو نقصان پہنچا چکے ہیں، انہیں اب لندن میں اپنے خلاف زیرالتواء مقدمات اور تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے۔ آیا انہیں پاکستان کے حوالے کیا جاتا اور مقدمہ چلتا ہے یا نہیں لیکن وہ خود کو ایک بے بسی کی پوزیشن میں لے آئے ہیں جو کئی لوگوں کے لئے سبق ہے۔ اس سے پاکستان میں ایم کیو ایم کے لئے نیا باب کھل سکتا ہے کہ وہ خود کو جمہوری پارٹی کی حیثیت سے استوار کرے لیکن اسے ماضی سے ناطہ توڑنا ہوگا۔ سوال یہی ہے آیا وہ ایسا کرسکتی ہے؟