کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف بڑی کمزوری انٹیلی جنس نیٹ ورکس کا باہمی تعاون نہ ہونا ہے، سول و ملٹری قیادت خارجہ پالیسی کی درست سمت کا تعین نہیں کرپارہی ہے،دہشتگردی سے نپٹنے کے طریقہ کار پر آج بھی سول ملٹری ہم آہنگی نہیں ہے، پشاور اور مردان میں دہشت گردوں کے دونوں حملے ناکام رہے ہیں، دہشتگردوں کی یہ ناکامی آپریشن کی کامیابی کی بڑی مثال ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے سیاسی قوتوں کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں، غیرموثر قومی سیکیورٹی پالیسی اور خارجہ پالیسی کے تضادات دہشتگردی کے خاتمے میں ناکامی کی اہم وجوہات ہیں،چاند پر محکمہ موسمیات کی پیشگوئی پر پابندی نہیں ہونی چاہئے،محکمہ موسمیات اگر چاند کی پیشگوئی نہیں کرے گا تو لوگ انٹرنیٹ سے حاصل کرلیں گے،اگر پابندی لگنی چاہئے تو رویت ہلال کمیٹی پر لگنی چاہئے۔ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، سلیم صافی، غلام مصطفٰی، امتیاز عالم، حفیظ اللہ نیازی اور بابر ستار نے جیو کے منفرد پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال پشاور اور مردان میں دہشتگردی! بے تحاشا قربانیوں کے باوجود مسئلہ حل کیوں نہیں ہوپارہا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پشاور اور مردان میں دہشتگردوں کے دونوں حملے ناکام رہے ہیں، پانچوں خودکش حملہ آور اپنے اصل ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکے، دہشتگردوں کی یہ ناکامی آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی بڑی مثال ہے، بدقسمتی سے ہماری اتھارٹیز ان سازشوں سے عوام کو آگاہ نہیں کرتے ہیں جنہیں پہلے ہی پکڑلیا جاتا ہے، دہشتگردی کیخلاف بڑی کمزوری ہمارے انٹیلی جنس نیٹ ورکس کا باہمی تعاون نہ ہونا ہے، ہماری سول و ملٹری قیادت خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین نہیں کرپارہی ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ قربانیوں کے باوجود دہشتگردی کا مسئلہ حل نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، دہشتگردی سے نپٹنے کے طریقہ کار پر آج بھی مکمل طور پر سول ملٹری ہم آہنگی نہیں ہے، افغانستان کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کے تضادات کسی حد تک اب بھی برقرار ہیں، شدت پسندی ختم کیے بغیر دہشتگردی مکمل طور پر ختم نہیں کی جاسکتی ہے،ہمارے حکمران طبقات اور میڈیا دہشتگردی کو صرف فاٹا، خیبرپختونخوا یا بلوچستان کا مسئلہ سمجھتے ہیں، آج مردان میں تیرہ جانیں گئیں اور پشاور میں چار خودکش بمباروں کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا لیکن اکثر نیوز چینلز کی ہیڈلائنز ایم کیو ایم کی سیاست اور پاناما لیکس کے ڈرامہ سے متعلق ہیں۔غلام مصطفٰی نے کہا کہ ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ بطور قوم نہیں لڑرہے ہیں، قومی قیادت دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے سیاسی قوتوں کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر صرف فوج کی حد تک کام ہوا ہے، دہشتگردی کی جڑوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے، مذہبی شدت پسندی کو مالی سپورٹ کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ ہم پچھلے پینتیس برسوں کی غلط پالیسیوں کا بوجھ دہشتگردی کی صورت میں برداشت کررہے ہیں، ہم نے دہشتگردی کا بہت بڑا انفرااسٹرکچر اپنے ملک میں بنایا جو اب ہمارے خلاف ہی کام کررہا ہے، نیشنل ایکشن پلان میں بہت سی باتوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے، غیرموثر اندرونی قومی سیکیورٹی پالیسی اور خارجہ پالیسی کے تضادات دہشتگردی کے خاتمے میں ناکامی کی اہم وجوہات ہیں۔ امتیاز عالم نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ اب مقامی نہیں رہی ہے، دہشتگرد افغانستان سے پاکستان میں اور پاکستان سے افغانستان میں جاکر حملے کررہے ہیں، انڈیا، امریکا اور افغانستان ہمیں مل کر گھیررہے ہیں، نظریاتی تبدیلی اور ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی مشکل ہے۔دوسرے سوال وزارت مذہبی امور کی طرف سے چاند پر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی پر پابندی درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے بابرستار نے کہا کہ آج کے دور میں معلومات تک رسائی روکی نہیں جاسکتی ہے، محکمہ موسمیات اگر چاند کی پیشگوئی نہیں کرے گا تو لوگ انٹرنیٹ سے حاصل کرلیں گے، رویت ہلال کمیٹی جس طرح کام کرتی ہے وہ مضحکہ خیز ہے، اگر پابندی لگنی چاہئے تو رویت ہلال کمیٹی پر لگنی چاہئے۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ہمارے علماء ابھی تک قرونِ اولیٰ میں رہتے ہیں، یہ لوگ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدیدیت کے خلاف ہیں، چاند پر محکمہ موسمیات کی پیشگوئی پر پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ سلیم صافی نے کہا کہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی ختم کرنا بہت سے مسائل کا حل ہوگا۔