• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھرنوں کا ڈرامہ جہاں اس کے پروڈیوسروں اور اداکاروں کے لئے سبکی کا باعث بنااور جہاں اس نے میدان سیاست و صحافت میں ماسک پہنے بہت سارے مکروہ چہروں سے نقاب اتار دیا ‘ وہاں یہ بعض شخصیات کے قد کاٹھ اور عزت و احترام میں اضافے کا بھی موجب بنا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب آخر الذکر فہرست میں سرفہرست رہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا اتحادی ہونے کے ناتے یہ خطرہ محسوس کیا جارہاتھا کہ وہ دھرنا دینے والوں کے ہمرکاب بن جائیں گے لیکن انہوں نے دھرنوں کے ذریعے آئین شکنی کا ساتھ دینے کی بجائے آئین اور جمہوریت کا ساتھ دیا۔ جو کام اب کی بار تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے لیا گیا ‘ تاریخی طور پر یہ کام(لیکن جماعت اسلامی کا طریقہ پھربھی باوقار اور اس کے اپنے اہداف سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہوا کرتا تھا) جماعت اسلامی سے لیا جاتا رہا لیکن سراج الحق صاحب نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دے کر کاندھا پیش کرنے سے انکار کرکے جمہوریت اور آئین کا ساتھ دیا۔ یوں جماعت اسلامی کے دامن سے ماضی کے داغ کو دھونے کی بھی حتی المقدور کوشش کی ۔ دھرنوں کے آغاز سے قبل انہوں نے شبانہ روز دوڑ دھوپ کے ذریعے فریقین کو سمجھانے اور دھرنوں کی نوبت نہ آنے دینے کی جو کوششیں کیں‘ اس کی وجہ سے ان کا سیاسی قد بہت بلند ہوا اوروہ ایک سیاسی مدبر کے طور پر سامنے آئے لیکن بعد میں جرگے کا سربراہ بننے کے بعد اس معاملے میں ان کا کردار مثالی نہیں رہا بلکہ کچھ حوالوں سے وہ کردارجرگے کے اسلامی اور مشرقی روح سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ قرآن کی ہدایت ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان کے مابین صلح کرادو لیکن اگر ایک فریق زیادتی سے باز نہ آئے تو پھر دوسرے فریق کا ساتھ دو ۔ اب سراج الحق صاحب جیسے لوگوں کے مطالبے پر تحریک انصاف کے مظاہرین کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی گئی ۔ ان کی طرف سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ پرامن رہیں گے اور آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے۔ خود عمران خان صاحب نے آبپارہ میں پوری قوم اور ٹی وی کیمروں کے سامنے متعدد مرتبہ اعلان کیا تھاکہ انہوں نے چوہدری نثار (حکومت ) سے وعدہ کیا ہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں بڑھیں گے لیکن پھر انہوں نے اعلانیہ طور پر یہ وعدہ توڑا اور ڈی چوک کی طرف چل پڑے۔ اب اسلامی اصولوں اور جرگے کی روح کے مطابق یہاں سراج الحق صاحب کو اپنی غیرجانبداری ترک کرکے وعدہ خلافی کرنے والے فریق کے خلاف کھڑا ہوجانا چاہئے تھا لیکن انہوںنے سیاست کو ترجیح دی اور وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے رہے ۔ سراج الحق صاحب کو یہ بھی علم ہوچکا ہوگا کہ جو کچھ تھا اسکرپٹ کے مطابق تھا اور اسکرپٹ میں دو سو کے قریب انسانوں کو مروانا بھی شامل تھا۔ اسی غرض سے آبپارہ سے ڈی چوک کی طرف مارچ شروع کردیا گیا اور اسی خواہش کی تکمیل کے لئے پھر وزیراعظم ہائوس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح اسی کوشش میں سرکاری ٹی وی پر دھاوا بول دیا گیا ۔ ان وارداتوں کے بعد اسلامی اصولوں کے مطابق سراج الحق صاحب کو اپنی غیرجانبداری ترک کرکے زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف حق کی گواہی دینی چاہئے تھی لیکن ہر موقع پر وہ یہ کہہ کر اس حوالے سے رائے کے اظہار سے گریز کرتے رہے کہ ثالث ہونے کے ناتے وہ متنازعہ بیان نہیں دینا چاہتے ۔ پشاور میں ایک درجن لوگ طوفان کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے تھے اور اسی روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک صاحب اسلام آباد میں کنٹینر پر رقص کرتے نظر آئے ۔ وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد آتے ہیں اور ان کی گاڑیوں اور ا سٹاف کے لئے تنخواہ جس خزانے سے نکلتی ہے‘ وہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے لیکن ثالثی کی وجہ سے جماعت اسلامی نے اس روئیے پر ایک بھی مذمتی بیان جاری نہیں کی۔ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا میں تعلیمی نصاب سے اے این پی کے دور میں شامل کئے گئے مضمون کونکالنے کے لئے تو بے چین تھی اور اسے نکال کے چھوڑ ا لیکن اسی محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام یونیورسٹیوں کو جاری کی گئی اس ہدایت کے خلاف جماعت اسلامی نے ایک بیان بھی جاری نہیں کیا جس میں یونیورسٹیوں کو علامہ طاہرالقادری کی تمام کتب اور تفسیر کو خریدنے اور لائبریریوں میں رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کا معاملہ دیکھ لیجئے ۔ ابتداء میں خود میں بھی اس حق میںتھا کہ یہ استعفے منظور نہ کئے جائیں اور خود میں نے بھی سراج الحق صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے کو التوا میں ڈالنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں لیکن پھر جب معینہ مدت گزر گئی اور پی ٹی آئی کے قائد کی ہٹ دھرمی جاری رہی تو اس کو التواء میں رکھنے کا کوئی اخلاقی اور آئینی جواز باقی نہ رہا ۔
سراج الحق صاحب کو مطالبہ کرنا بھی تھا تو انہیں عمران خان صاحب سے کرنا چاہئے تھا کہ وہ اپنے اراکین کے استعفے واپس لیں لیکن ان کی بجائے وہ ا سپیکر سے مطالبہ کرتے جارہے ہیں ۔ حالانکہ اسپیکر استعفے منظور نہ کرکے غیرآئینی کام کررہے ہیں ۔ سراج الحق صاحب کو یہ بھی علم ہے کہ ابتدائی منصوبہ تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا تھا لیکن جب وزیراعلیٰ اور متعدد اراکین صوبائی اسمبلی نے استعفوں کی صورت میں بغاوت کا عندیہ دیا اور مسلم لیگ (ن) سے ان کے رابطوں کا انکشاف بھی ہوا تو تحریک انصاف نے صرف قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینےپر اکتفا کیا۔ گویا مردان میں ممبرقومی اسمبلی علی محمد خان کا انتخاب تو جعلی ہے لیکن اسی مردان میں صوبائی حلقے پر منتخب ہونے والے محمد عاطف کا انتخاب درست ہے ۔ جس روز شاہ محمود قریشی صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے جارہے تھے تو اس سے ایک روز قبل کے پی کے ہائوس میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا ۔ اس میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے قریشی صاحب کی خوب خبر لی اور شکوہ کیا کہ شاہ محمودقریشی جیسے لوگوں نے اپنے اسکرپٹ کی خاطر ان کو قربان کیا۔ یہاں سے شاہ محمود قریشی اس یقین دہانی کے ساتھ نکلے تھے کہ وہ ان کے استعفے منظور ہونے نہیں دیں گے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ کل تقریر کے دوران ایسا طریقہ اختیار کریں گے کہ استعفوں کی تصدیق یا تردید کی نوبت ہی نہ آئے ۔ اب ان سارے معاملات کا سراج الحق صاحب کو علم ہے لیکن وہ پی ٹی آئی کی قیادت کو کچھ کہنے کی بجائے اسپیکر سے مطالبے کررہے ہیں کہ وہ (غیرآئینی کام کرکے) پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفے منظور نہ کریں ۔ ’’جرگہ‘‘ کے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے یا پھر قبائلی‘ پشتون‘ سندھی‘ بلوچ‘ سرائیکی‘ یا پنجابی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو ہر دو صورتوں میں سراج الحق صاحب کو ہر دو فریقوں کی وعدہ خلافی یا پھر غیر قانونی اور غیراخلاقی حرکت پر ان کی پکڑ کرنی چاہئے تھی لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ ثالثی کی آڑ لے کر عملاً ایک فریق کا ساتھ دیتے رہے بلکہ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاہ محمودقریشی صاحب کے گیم کے لئے ایک کھلاڑی کے طور پر استعمال ہورہے ہیں ۔ جھوٹ اور سچ ‘ حق اور باطل واضح ہوتو پھر ثالث کو وکٹ کے ایک طرف کھیلنا چاہئے لیکن وہ عمران خان صاحب کی محبت میں یا پھر ثالثی کی غیرضروری کوشش میں وکٹ کے ایک طرف (پی ٹی آئی کی طرف سے) کھیلتے رہے اور چونکہ عمران خان صاحب کی روایت یہی ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو بھولتے نہیں اس لئے انہوںنے اس روایت کو تازہ کرتے ہوئے سراج الحق صاحب پر وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کا الزام لگایا۔حالانکہ میں بہت سارے معاملات سے ذاتی طور پر واقف ہوں اور وقت آنے پر کسی بھی فورم پر یہ ثابت بھی کرسکتا ہوں کہ سراج الحق صاحب وکٹ کے دونوں جانب نہیں کھیلے بلکہ وہ وکٹ کے ایک طرف یعنی خان صاحب کی طرف سے کھیلتے رہے ۔کاش سراج الحق صاحب اس معاملے میں حقیقی ثالث بن کر وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے تو آج انہیں عمران خان صاحب کے اس طعنے اور غلط الزام کا سامنا کرنا نہ پڑتا ۔
تازہ ترین