جب پرویز مشرف فوجی افسر کی حیثیت سے تربیتی کورس پر امریکہ گئے تو ایک امریکی ٹرینر نے ان کے مزاج سے متعلق رائے دیتے ہوئے لکھا، اگر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا موازنہ کیا جائے تو ان میں کیا فرق ہے۔فرق یہی ہے کہ اگر ضیاء الحق کو فضاء میں بلندی سے زمین پر چھلانگ لگانے کو کہا جاتا تو وہ پہلے پوچھتے کہ اس کے پیچھے کیا منطق ہے،کیوں چھلانگ لگائوں میں۔لیکن پرویز مشرف سوچے سمجھے بغیر کود جاتے،ہاتھ پائوں تڑوانے کے بعد سوچتے کہ میں نے جمپ کیوں کیا۔اگر میں اس امریکی ٹرینر کے الفاظ مستعار لوں تو عمران خان اور سراج الحق میں بھی یہی فرق ہے۔عمر کے لحاظ سے سراج الحق عمران خان سے 10سال چھوٹے ہیں مگر ان کا سیاسی تدبر اور تجربہ ان کے مقابلے میںکہیں زیادہ ہے۔جب عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے تو سراج الحق اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کر چکے تھے۔دھیمے مزاج کے حامل سراج الحق پختون ہونے کے باوجود اردو میں بات کرتے وقت الفاظ کا انتخاب نہایت احتیاط سےکرتے ہیں ۔دھرنوں کے دوران جب وہ مصالحت کار کے طور پر سرگرم تھے اور تحریک انصاف پانچ مطالبات پر اتفاق ہونے کے باوجود استعفے کے مطالبے سےپیچھے ہٹنےکو تیار نہ تھی تو میڈیا نے سراج الحق کو اکسانے اور عمران خان کے خلاف بات کہلوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔لیکن ان کے برعکس عمران خان ایک ایسے سیاسی رہنما ہیں جن کی زبان کا سرکش گھوڑا اکثر بے لگام ہو جاتا ہے اور اپنے محسنوں کو بھی روند تا چلا جاتا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال ان کے سراج الحق اور جماعت اسلامی کے حوالے سے حالیہ بیانات ہیں کہ سراج الحق وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کریں اور بتائیں کہ وہ کس کی طرف ہیں۔حالانکہ سراج الحق تو اس میچ میں ریفری یا امپائر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس منصب کا تقاضا یہی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہیں مگر عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ امپائر کو اپنے ساتھ ملاکر کھیلیں۔عمران خان نے چند روز قبل بھی ایک بیان دیا تھا کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے تھوڑا سا پاگل پن ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ کر گزرنے کے لئے تھوڑا سا پاگل پن ناگزیر ہوتاہے لیکن یہ پاگل پن حماقت کا درجہ اختیار کر لے اور انسان جس شاخ پہ بیٹھا ہو ،اسے ہی کاٹنا شروع کر دے تو نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ بات سب کو معلوم ہے۔سراج الحق نے عمران خان کو بند گلی سے نکلنے کے لئے کنٹینر سے اترنے اور ملک بھر میں جلسے کرنے کا مشورہ دیا اور اس حکمت عملی نے تحریک انصاف میں نئی روح پھونک دی۔اس سے قبل جب سراج الحق سینئر وزیر تھے تو انہیں ایک ستون کی حیثیت حاصل تھی اور ان کے تعاون کا یہ عالم تھا کہ جب تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بنا تو عمران خان نے پرویز خٹک کے بجائے سراج الحق کو کردار ادا کرنے کو کہا۔امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے کے بعد خود عمران خان نے ذاتی طور پر سراج الحق سے درخواست کی کہ آپ فی الحال استعفیٰ نہ دیں۔اگر سراج الحق چاہتے تو کسی بھی وقت تحریک انصاف سے اتحاد توڑ کر مولانا فضل الرحمٰن ،مسلم لیگ (ن) ،شیر پائو اور آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیتے اور خود وزیر اعلیٰ بن جاتے۔انہیں کئی بار یہ پیشکش کی گئی کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیں تو نئی اتحادی حکومت میں انہیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ مل سکتا ہے لیکن وہ جوڑ توڑ کےاس کھیل سے دور رہے۔مگر عمران خان نے محض ایک غیر مصدقہ اخباری بیان کو بنیاد بنا کر اپنے اس محسن کی پگڑی اچھال دی۔
سوال یہ ہے کہ آخرعمران خان نے اچانک اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی کی طرف کیوں موڑ دیا؟تحریک انصاف کے بعض رہنماء ’’آف دی یکارڈ ‘‘ بتاتے ہیں کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔پہلی تو یہ کہ عمران خان احتجاجی تحریک میں جان ڈالنے کیلئے صوبائی حکومت چھوڑنا چاہتے ہیں مگر پرویز خٹک اور ان کی کابینہ اس کے حق میں نہیں۔جماعت اسلامی سے لڑائی مول لے کر وہ ایوان میں پرویز خٹک کی عددی برتری ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے پاس حکومت چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔دوسری اہم ترین وجہ سراج الحق کی بڑھتی ہوئی پذیرائی اور مقبولیت ہے جس سے عمران خان خائف ہیں اور اب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں۔انہیں نظر آ رہا ہے کہ سراج الحق کی قیادت نے جماعت اسلامی میں نئی جان ڈال دی ہے،جب نومبرمیں جماعت اسلامی مینار پاکستان پر اجتماع عام سے اپنی عوامی تحریک کا آغاز کرے گی تو یہ تاثرباقی نہیں رہے گا کہ لاکھوں کے جلسے صرف عمران خان ہی کر سکتا ہے۔عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا کوئی اگر اس نظام کو چیلنج کر رہا ہے تو اس کا نام سراج الحق ہے چونکہ وہ نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اس لئے ان کی بات میں معقولیت کہیں زیادہ ہے۔خاص طور پر خیبر پختونخوا جہاں دوسری بار موقع دینے کی روایت نہیں اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دھرنوں کی سیاست چھوڑ کر کارکردگی پر توجہ نہ دی تو اس کا انجام اے این پی سے مختلف نہیں ہو گا اور ایسی صورت میں متبادل قوت یقینا جماعت اسلامی ہو گی۔اسی صورتحال کے پیش نظر عمران خان کو اپنی توپوں کا رُخ سراج الحق کی طرف موڑنا پڑا۔
جماعت اسلامی کی بدقسمتی دیکھیں کہ ایک طرف اس کی قیادت پاکستان سے وفاداری کے جرم میں کوئے یار سے سوئے دار کی جانب بڑھ رہی ہے۔عبدالقادر مُلا کے بعد مطیع الرحمٰن نظامی کو سزائے موت ہو چکی،پروفیسر غلام اعظم دوران اسیری انتقال کر گئے اور نہ جانے کتنے جرم وفا کی سزا بھگتنے کو تیار بیٹھے ہیں مگر دوسری طرف اس سے وفاداری کے سرٹیفکیٹ مانگے جا رہے ہیں۔جب بھی کوئی ’’دانش گرد‘‘ اٹھتا ہے یہ کہہ کر جماعت اسلامی کو کٹہرے میںکھڑا کر لیتا ہے کہ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی مخالفت کیوں کی۔مولانا مودودی نے قائد اعظم ؒ کو کافر اعظم کیوں کہا۔ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے یہ ’’دانش گرد‘‘ جسٹس کیانی کی رپورٹ پڑھ لیں جو 1953ء میں شائع ہوئی،انہیں معلوم ہو جائے گا کہ قائد اعظم کو کافر اعظم کی گالی کس بد بخت نے دی تھی۔ جھوٹے حوالہ جات کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو قیام پاکستان کا مخالف قرار دینے والوں کو علم نہیں کہ جب مسلم لیگ کے پاس مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحدکرنے کا کوئی جواز نہ تھا تو مولانا مودودی ؒ نے ’’مسئلہ ء قومیت ‘‘ نامی کتاب لکھ کر یہ جواز فراہم کیا۔اگر یہ پروپیگنڈہ درست ہوتا تو قائد اعظم قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا مودودی سے یہ درخواست کیوں کرتے کہ آپ ریڈیو پاکستان پر قو م کو اسلام کے بنیادی تصورات سے آگاہ کریں اور بتائیں کہ اسلامی نظام کے خد و خا ل کیا ہیں۔ان کی نشری تقریروں کا ریکارڈ دستیاب ہے اور ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
باقی رہا عمران خان کا معاملہ تو وہ قنوطیت اور نرگسیت کا شکار ہیں اور سراج الحق کے بارے میں ان کا بیان اسی سوچ کا آئینہ دار ہے۔