• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ اسے مبالغہ آرائی نہ سمجھیں ، میں بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہنے چلاہوں کہ آج تمام تر مخدوش حالات کے باوجودپاکستان و بھارت تعلقات (باہمی) بہتر بنانے میں بے حد سنجیدہ اور مخلص نظر آ رہے ہیں۔ اگر اب بھی ہم صحیح منصوبہ بندی پر کار بند نہیں ہوتے تو مستقبل حال بن جاتا ہے۔حال ماضی اور ماضی ایک ناقابل فراموش المناک داستاں۔ حبیب جالب نے ایک بار مجھے خط میں لکھا تھا ’’آخر ہمارے ساتھ کیا خرابی ہے کہ بحیثیت قوم کوئی دوسری قوم ہم پر کیوں اعتماد نہیںکرتی۔ ہمارے الفاظ ہمارا چہرہ کیوں نہیں بن پاتے۔ ہمارے احساسات، ہمارے جذبات آخر دوستی کی طرف کیوں ہاتھ نہیں بڑھاتے، ہمسائے جوکہ اس دوستی کے بہترین حقدار ہیں وہاں بھی دشمنی اپنا رنگ کیوں جمائے ہوئے ہے۔‘‘
حبیب جالب میرا دوست تھا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس نے سورج کے نکلنے کی تمنا کی تھی لیکن وہ اس روشنی کی ہلکی سی لکیر دیکھنے سے قبل ہی چل بسا بہت سال ادھر کی بات ہے عالمی اردو کانفرنس کی دعوت پر میں دہلی گیا تو میں نے وہاں سے اسے کارڈ لکھا ’’موقع ملے تو اس پار بھی آئو کہ لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں‘‘ جب میں دہلی سے واپس ایمسٹر ڈیم پہنچاتو اس کا خط آیا رکھا تھا۔ اس نے لکھا تھا۔ ’’تم خوش قسمت ہو جب چاہو دونوں ملکوں میں آجا سکتے ہو۔ خدا کرے کہ دونوں ملکوں میں جلد دوستی ہو۔ امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، شانتی کارنگ گاڑھا ہو۔‘‘ آگے چل کر لکھتا ہے۔‘‘ آخر خرابی ہے کہاں ؟ دونوں ملکوں میں یہ پس ماندگی اور زبوں حالی کیوں ہے! کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟ یہاں کی زمینیں بانجھ ہیں؟ کیا اس علاقے سےگزرنے والی ہوائیں نا مہربان ہیں؟ گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں کیا یہاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رات ٹھہر گئی ہے؟‘‘ وہ اکثر کہتا تھا کہ کسی بھی نظریہ پہ ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریئے کے خلاف زندگی گزارنا مکروہ عمل ہے۔جالب کو ہم سے بچھڑے ہوئے بہت سال گزر گئے۔اس دوران پانچ دریائوں کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے دونوں ملکوں پر ٹھہری ہوئی رات میں صبح کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ جالب کا کھلی آنکھوں سے دیکھا سپنا، امن و دوستی کا خواب تعبیر پانے لگا۔ امرتسر سے واہگہ تک کا 37 میل کا فاصلہ پہلی بار ایک وزیراعظم نے بس کے ذریعے طے کیا تھا نفرت کی برف پگھلنے لگی تھی۔ واجپائی کا جالب کے شہر لاہور کا تاریخی سفر دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا ایک سنگ میل تھا۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے جس گرم جوشی کے ساتھ بھارت کے وزیراعظم کا استقبال کیا تھا اوربھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کیلئے جس عوامی مینڈیٹ کا ذکر کیا تھا اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرح امن و سلامتی، بھائی چارہ، حقیقت پسندی، وقار، انسانی عظمت اور دیانتداری کی فضا سازگار ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی اس تاریخی سفر کی مخالفت کرتا ہے تو بلاشبہ اس کا یہ اقدام قومی اور ملکی مفادات کے خلاف ہے دنیا بھر کے امن پسند عوام، حکومتوں اور جماعتوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات لاہور کا خیر مقدم کیا تھا بہت سے ممالک نے وعدہ کیا ہے کہ خطے میں خوشحالی و ترقی کو فروغ دینے میں دونوں ملکوں سے ہر ممکن تعاون کریں گے۔
امریکی صدر کلنٹن نے کہا تھا کہ میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کے اس غیر معمو لی اقدام ہمت وحوصلہ کی داد دیتا ہوں کہ وہ ا یک دوسرے کے قریب آئے اور ان دشوار مسائل پر تبادلہ خیال کیا جو طویل عرصہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد بنے ہوئے ہیں مختلف ملکوں کی جانب سے دونوں وزیر اعظم کی گئی تعریفیں اور اخبارات کے تبصرے اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی دوڑ کوکم کرنے ، باہم جنگ نہ کرنے ، علاقائی تنازعات حل کرنے سیاسی آزادی اورانسانی حقوق کو فروغ دینے اور اقتصادی خوشحالی کے ذریعہ اپنے اپنے عوام کا طرز معاشرت بہتر بنانے جیسے معاملات سمیت تمام کلیدی امور پر خاص توجہ مرکوز کرنے نیز پائدار امن کی کوششوں میں تیزی لانے کا دونوں وزیراعظم کا عزم قابل تحسین ہے ، لیکن سوال یہ ہے کیا دونوں ملکوں کے سربراہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعوں کسی طے شدہ فارمولا کے ذریعہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے ؟ گزشتہ نصف صدی سے مسئلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بے حد کشیدہ اور پیچیدہ کر دیا ہے معاہدہ لاہور سے پہلے بھی کئی بار مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن مسئلہ کشمیر مزید الجھتا چلا گیا ۔ اب سوال یہی ہے کہ آخر مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے ؟ میں سمجھتا ہوں دونوں ملکوں کو اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنی چاہئے ایک دوسرے کی مشکلات کا خیال کرتے ہوئے ’’ کچھ لو کچھ دو ‘‘ کی پالیسی سے یہ معاملہ طے ہوسکتا ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں میں غالب سیمینار میں شرکت کیلئے دہلی میں تھا تو بی جے پی کے سابق لیڈر جیٹھ ملانی نے بھی اپنے ایک بیان مین اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا اور خود من موہن سنگھ بھی چند سال قبل جب وہ وزیراعظم بھی تھے اس اصول کی صداقت کا اظہار کرچکے ہیں ۔
برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو ہمسایوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوا تو ایسی صورت میں ہمیشہ تیسرے فریق ہی نے فائدہ اٹھایا ہے۔لاہور مذاکرات میں وزیراعظم نواز شریف کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ بھارتی وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کو تنازع کی اصل بنیاد مان لیا اور وہ اس موضوع پر بات کرنے کو تیار ہوگئے جس پر وہ پہلے بات سننا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ ادھر وزیراعظم نواز شریف نے بھی وسعت نظری سے کام لیا۔وزیراعظم نواز شریف نے ایک مشترکہ کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا۔گزشتہ 50برسوں میں ہم نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ اور کیا کیا ہے؟ اب جبکہ جمود ٹوٹ رہا ہے تو یہ الزام تراشی بھی بند ہو جائے گی ’’ بھارتی وزیراعظم سے جب اس کی وضاحت کیلئے کہا گیا تو انہوں نے کہا۔’’جموں و کشمیر پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ بتانا قبل از وقت ہے‘‘ یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر سیاسی مسائل کے حل میں دشواریاں حائل ہیں تو ان کی قیمت پر تجارتی اور سماجی تعلقات کو خسارے میں نہیں رہنا چاہئے کہ آج کے دور میں جب یورپی ممالک ایک مشترکہ تشخص کی تلاش میں سرگرداں ہیں برصغیر کے ممالک کو ان کے مقابل میں کہیں زیادہ اتحاد اور مشترکہ تشخص کی ضرورت ہے کہ پاک و ہند کے لوگ ایک دوسرے کیلئے خیرسگالی اور تعاون کا جذبہ رکھتے ہیںان کے درمیان نفرتیںسطحی اورمصنوعی ہیں جب بھی خیرسگالی کی بات ہوتی ہےتو سرحد کے دونوں طرف آباد کروڑوں لوگ نفرت کے جذبے کو فراموش کر کے ایک دوسرے کیلئے بانہیں وا کر دیتے ہیں۔ بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان مسائل اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کو سلجھانے میں کافی وقت درکار ہوگالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج دونوں ملک تعلقات بہتر بنانے میں بے حد سنجیدہ اور مخلص نظر آ رہے ہیں اور یہ کہ جس کسی کی بھی لاہور سے دہلی ’’بس ڈپلومیسی‘‘ کی تجویز ہے بے حد شاندار اور امن کو قریب لانے کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آج جالب زندہ ہوتا تو وہ اس بس کا ڈرائیور ہوتا اور ہم اس کے چاہنے والے اس بس میں سیٹوں پر قبضہ کرنے کیلئے ایک دوسرے پر گرے پڑے ہوتے۔میرا اہم شعر حاضر ہے۔
لمحہ لمحہ جیسے کوئی مررہا ہے، میں کہ تو
محو حیرت آئینہ در آئینہ ہے، میں کہ تو
تازہ ترین