وطن دشمنی، احسان فراموشی، ناسپاسی، ہرزہ سرائی، بدگوئی و بدزبانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ 69برسوں میں کسی جماعت کے کسی فرد نے یوں دیدہ دلیری سے وطن عزیز ہمارے ازجاں پاکستان کی حد درجہ اہانت کرتے ہوئے، غضب خدا کا (کہنے والے کے منہ میں خاک) اس کے حق میں مردہ باد کہہ کر دل نہیں دکھایا، ایذا نہیں پہنچائی، قومی و ملی جذبوں کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ قلب و روح کو زخمی نہیں کیا، جسے دیکھو غم و غصے سے خون کھول رہا ہے۔آزادی کے متوالے لاکھوں جانیں قربان کرکے خاک و خون، آلام و مصائب کے ہولناک طوفانوں سے گزرنے کے بعد جس پاک سرزمین پر قدم رکھتے ہی الحمدللہ کہہ کر اللہ رب العزت کے حضور اس کاشکر ادا کرنے لگے، اس جنت کے ٹکڑے کو مردہ باد کہنا، بے ضمیری اور بدبختی کی انتہا ہے۔
اسی دھرتی کی گود میں پل کر کسی قابل بنا انسان
یہ فال بد منہ پر لائے، انتہا ہے ناسپاسی کی
الطاف حسین (بھائی کہنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا) نے اسی پر بس نہیں کی۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ہم وطنوں کو اپنے ہی گھر میں توڑ پھوڑ کرنے، میڈیا اور صحافیوں پر پل پڑنے، مرنے مارنے، آگ لگانے پر اکسانا، بھڑکانا، ایسا کرنے ووالے کو عمر بھر کیلئے پابند سلاسل کردینا بھی کم سزا ہے۔ دیدہ دلیری تو دیکھیے ہماری بہادر فوج کی توہین کی، جس کے سرفروش جوانوں نے وطن عزیز میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوشش میں برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں سینہ سپر ہوکر اپنی قیمتی جانیں بے جگری سے نچھاور کردیں، ان شہیدوں کی مائوں کے دل زخمی کیے، ایسے تگ دیں، تنگ قوم تنگ وطن غدار کو، احتجاج سے خوفزدہ ہوکر معافی مانگنے پر معاف کرنا کیسا؟ ہمارے وطن کی ناموس اتنی سستی ہے کیا؟ مردہ باد، کے لفظوں کو کیوں نہ اس کے نام سے ہمیشہ کے لیے جوڑ دیا جائے۔اور پھر کیا معافی کا یہ انداز ہوتا ہے؟ ادھر معافی مانگی، ادھر دوسرے ہی دن پھر وہی ہرزہ سرائی، معافی نہ ہوئی کھیل تماشہ ہو گیا۔
توبہ مری جام شکن، جام مرا توبہ شکنی
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
ناجی نا! یہاں معافی کا سوال ہی نہیں،اس سے پہلے کہ ناپاک جرات کسی نے کی ہی نہیں، کوئی اس درجہ اخلاقی پستی کا مرتکب نہیں ہوا۔ چہ جائیکہ ای سیاسی پارٹی کا رہنما اس دھڑلے سے اس قابل نفرت عمل کا مرتکب ہو۔
اک ذرا سا پیچھے نظر کریں تو اس ضمن میں کئی اور گل وہ پہلے بھی کھلا چکے ہیں، قیام پاکستان جسے ہم اللہ کا احسان، کٹھن صبر آزما جدوجہد کے نتیجے میں ملنے والا انعام قرار دیتے ہیں، وہ اسے منہ بھر کر سنگین غلطی کا نام دے چکے ہیں، ظالم، مکار ہمسائے سے مدد کے خوا ہوئے کسی کے خلاف؟ اپنے وطن، اپنی مٹی، اپنے گھر، اپنی ستگار جنت کے خلاف، ’’را‘‘ کے ہمنوا بنے اور اب جو حد سے گزرے تو کیا یہ سب کچھ ایک معافی مانگنے پر معاف کردیا جائے؟ نہیں، یہ کسی طور قابل معافی نہیں۔ اپنے وطن کو مردہ باد کہنا، اپنی ماں کو گالی دینا ہے، اس کی بے حرمتی کرنا ہے۔ایسا فعل کیوں کر معاف کیا جائے کس دل سے؟ کس امید پر؟ کیا سوچ کر؟ آزمودہ لا آزمودن جہل است۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس پر ایسی سزا دی جائے جو ایک مثال بننے، عبرت کا نشان بن کر ایسی ناپاک جسارت کے بارے میں سوچنا بھی دشوار کردے۔ سیاسی پارٹیاں ہم و طنوں کی خدمت اور بہتری کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں کہ ہم خیال افراد یکجا ہوکر کچھ کرنے، کر دکھانے کا سامان کرسکیں، ہم وطنوں کے خوابوں، آرزوئوں، ضرورتوں کی تکمیل کے لیے منصوبے تیار کیے جائیں۔پھر ان پر عمل پیرا ہوکر ملک کو ترقی، خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں اور الطاف حسن اسمبلی میں نشستیں رکھنے والی جماعت کے رہنما تو اس کی سلامتی کے درپے ہورہے ہیں۔ اپنے وطن کے لیے زندہ باد، پائندہ باد کہہ کر نیک خواہشوں کے اظہار کی بجائے مردہ باد کہہ کر ملک کے طول و عرض میں ہی نہیں، ہزاروں میل دور بیٹھے محب وطن پاکستانیوں پر اپنی تخریبی سوچ واضح کررہے ہیں۔ ہم بھرپائے اس پارٹی سے اس جماعت سے، پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان ہ م، اور ہمارا عزیز از جاں پاکستان اس کے بغیر ہی بھلا!
.