دنیا کے تمام خطوں میں تہذیبوں نے جنم لیا اور ان میں تصادم اور ارتقاء کا عمل بھی جاری و ساری رہا۔ بابل کی تہذیب ہو یا فلسطین کی، عرب ہو یا یونان یا پھر ہندوستان، تاریخ کے طالب علم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ تاریخ سے اگر ارتقائی عمل کو حذف کردیا جائے تو تاریخ کو سمجھنے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔ راقم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ ہم کسی تہذیب پر کوئی الزام عائد کررہے ہیں۔ بحیثیت طالب علم سوال اٹھانا میں اپنا حق سمجھتا ہوں۔ اگر اس کوشش سے کسی کی دلآزاری ہوئی ہے تو میں تہہِ دل سے معذرت خواہ ہوں۔کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں 866ء میں سندھ کے علاقے منصورہ کے ایک عالم دین سے جن کا نام مذکور نہیں، عبداللہ بن ابوبکر ہباری نےکروایا۔ لیکن تاریخ میں یہ نسخہ دستیاب نہیں اور نہ ہی اس امر کا کوئی ثبوت دستیاب ہے کہ اس زمانے میں سندھی زبان ضبط تحریر میں لائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ درسی کتب میں ابوالحسن سندھی کا نام بھی رقم ہے لیکن ثبوت دستیاب نہیں۔ میرے ایک عزیز دوست نے اپنے علاقے مٹیاری کی ایک بزرگ ہستی کا نام بھی لیتے ہوئے تذکرہ کیا کہ انہوں نے قرآن حکیم کا ترجمہ کیا ہے جن کا نام آخوند عزیز اللہ مرحوم تحریر کیا گیا ۔ اس سے انکار نہیں۔ بی اے کی درسی کتب میں یہ حوالہ مذکور ہے اور ان کا دور 1746ء تا 1834ء بتایا جاتا ہے۔ اس بزرگ ہستی نے قرآن کی آیات کا تحت اللفظ ترجمہ کیا۔ یہاں تک کہ شانِ نزول کا ترجمہ بھی کیا لیکن راقم کا سوال اب بھی برقرار ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں ہونے والا ترجمہ قرآن کہاں ہے؟
اسی تحریر میں آگے چل کر سندھ کے فرزند نے تحریر کیا کہ ٹھٹھہ ضلع کے ساحل پر قبل از تاریخ ایسے کارخانے موجود تھے جو ململ کے نفیس کپڑے بنایا کرتے تھے جو فراعین مصر اپنے مردہ لوگوں کے کفن کیلئے استعمال کرکے ممیوں کو محفوظ کیا کرتے تھے اور وہ تاریخ بتانے سے قاصر رہے۔ دوسری ہی سطر میں رقمطراز ہوئے کہ یہ ساحل گجرات ، تھر اور راجستھان کے لوگ حج کرنے کے لئے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک جملہ قبل از تاریخ کا اور دوسرا بعد از اسلام کا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ عرب کے مسلمان جرنیل محمد بن قاسم نے 712ء میں سمندری راستوں اور ذرائع آمد و رفت سے متعار ف کرایا۔ اپنی اِس تحریر میں میرے محترم استاد نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ برہمن آباد نام کا شہر نہیں تھا بلکہ محمد بن قاسم نے اسے اپنی فوجی چھائونی اور اسلحہ خانے کے طور پر استعمال کیا۔ تاریخ کا اگر مطالعہ کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ شہر راجہ داہر کی سلطنت میں ایک ثانوی دارالحکومت کی حیثیت رکھتا تھا۔ چھ ماہ راجہ داہر موجودہ روہڑی کےقریب اروڑجو اس کا دارالحکومت تھا، وقت گزارا کرتا تھا اور باقی کے چھ ماہ وہ برہمن آباد میں رہتا تھا۔ یہاں یہ امر بھی واضح کرتا چلوں کہ عربوں نے اس کا نام منصورہ رکھا تھا جبکہ راجہ داہر کے دور میں یہ برہمن آباد کہلاتا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آباد کی ترکیب فارسی زبان کی ہے۔ عربی کی نہیں۔ اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جب راجہ داہر کو شکست ہوئی تو اس کا بیٹا جے سنگھ جسے بعض مؤرخین نے جیسیہ بھی لکھا،وہ اروڑ سے نکل کر برہمن آباد آیا اور شکست کھا کر کشمیر فرار ہو گیا۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی ترکیب کو میرے معزز دوست نے سرائیکی تسلیم کرتے ہوئے تالپوروں کی مادری زبان سرائیکی تسلیم کی ہے لیکن وہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ تین دارالحکومت تو تھے لیکن یہ تین انتظامی یونٹ نہ تھے۔ جبکہ میں نے یہ لکھا تھا کہ یہ تین ریاستیں بھی ہوسکتی تھیں اور تین انتظامی یونٹ بھی۔ یہ جملہ میں نے اس لئے رقم کیا کہ جب انگریزوں نے اس خطہ زمین پر قدم رکھا تو ان تینوں حکمرانوں سے علیحدہ علیحدہ معاملات طے کیے۔ اسی کے ضمن میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ سندھی، پنجابی اور سرائیکی جڑواں بہنیں ہیں، جغرافیائی، تہذیبی ، تمدنی اور ثقافتی اعتبار سے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ تصادم ہر دور میں رہا۔کالا باغ ڈیم اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
سندھ کے اندر دو انتظامی یونٹوں یعنی دیہی اور شہری نظام کی توجیہ میں موصوف رقمطراز ہیں کہ اس وقت کی قومی اسمبلی نے اس نظام کومنظور کیا جس میں کراچی کی نمائندگی بھی تھی۔ یہاں سے میں نے ایک تعصب کی جھلک محسوس کی۔ بات تاریخ کے اوراق کی ہورہی تھی، نسلی یا لسانی تعصب کی نہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ جس اسمبلی نے 1973ء کا دستور بنایا تھا، کیا اُسے دستور سازی کا اختیار تھا؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا کیونکہ 1970ء کے انتخابات دستور سازاسمبلی کے نہیں تھے اور تقسیم پاکستان کے بعد یہ انتخابات اپنی حیثیت کھو چکے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے قوانین کی حیثیت کیا ہے، اس پر بھی سوال اٹھایاجاسکتا ہے۔
زیر بحث کالم میں ایک قابل حیرت امر یہ تھا کہ سندھ کی تہذیب کو مثالی بھی کہا گیا جس کو میں تسلیم کرتا ہوں لیکن عجیب کیوں کہا گیا، یہ بحث طلب بات ہے۔ عجیب اس لئے کہ سرزمین کی بدنصیبی یہ رہی کہ اس میں دنیا کے ہر خطے سے لوگوں نے آکر جنگیں لڑیں، قبضہ کیا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور ہر آنے والے حکمران نے گزشتہ حکمران سے جنگ کرکے قبضہ کیا۔ ایک بات صدیوں سے مشترک ہے کہ سندھ کے عوام محکوم رہے لیکن تقسیم ہند کے بعد صورتحال مختلف ہو گئی کیونکہ یہاں آنے والے کوئی جنگجو یا بھوکے نہیں تھے بلکہ وہ ایک تہذیب لے کر یہاں آئے تھے او ر وہ پاکستانی بننا چاہتے تھے جو نہیں بننے دیا گیا۔ اپنی اس معرکۃ الآرا تحریر میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ کیٹی بندر جیسی ساہوکار میونسپلٹی نے کراچی کو قرضہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کیااور راقم کا سوال گزشتہ کالم میں بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ ایسے شہر جنہوں نے کراچی جیسے شہروں کو تعمیر اور آباد کیا، آج وہ پسماندہ کیوں ہیں؟ 42سال سے ترجیحی بنیادوں پر وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں اور اس علاقے کے عوام پھر بھی خط افلاس سے نیچے ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، لیکن یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے طالب علم کی حیثیت سے سندھی زبان، اس کے رسم الخط پر کچھ سوالات اٹھائے تھے جس کے بارے میں رائے دینے سے میرے معزز دوست نے پہلو تہی کی ہے۔ میں ان کے علم میں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ پاکستان میں 1کروڑ85لاکھ افراد سندھی بولتے ہیں جبکہ ہندوستان میں آج بھی 28لاکھ ایسے نفوس ہیں جو سندھی زبان بولتے اور لکھتے ہیں اور انہوں نے 1947ء کے بعد دیوناگری رسم الخط میں سندھی زبان کو پڑھنا اور لکھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے ان کے پاس بھی کوئی ثبوت دستیاب نہیں کہ وہ کس رسم الخط میں سندھی زبان کو تحریر کرتے تھے گو کہ موجودہ سندھ میں اٹھارہویں صدی سے عربی زبان سے ماخوذ رسم الخط موجود ہے۔
اس بحث کے تناظر میں ، راقم یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ یہ ایک ارتقائی عمل کا حصہ ہے اور جب ارتقاء وقوع پذیر ہوتا ہے تو وہ نسلی و لسانی بھی ہوتا ہے اور ثقافتی و تمدنی بھی۔ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مہذب ثقافتوں میں دوسری ثقافتیں ضم ہوجاتی ہیں۔ سرزمین سندھ پر بلوچ آئے تو وہ فرزند سندھ بن گئے ۔ مغل آئے تو وہ بھی فرزند سندھ کہلائے۔ عرب آئے تو وہ بھی فرزند سندھ ہوئے۔ کیا وجہ ہے کہ اب یہ زمین کے وارث کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں؟ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے اور اس کے اوراق کو تباہ تو کیاجاسکتا ہے لیکن سینوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اپنے اثرات کہیں نہ کہیں چھوڑ جاتی ہے۔ سندھ کے ایک اور فرزند کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ وہ آج بھی میر تقی میرؔ اور غالبؔ کے اشعار پڑھ کر آنے والے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ سندھی، پنجابی اور سرائیکی زبان میں بے پناہ مشترک الفاظ موجود ہیں اور ان تینوں زبانوں کے ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ وہ اس کا جائزہ لیں۔ یہی وہ سچائی ہے جس کی طرف راقم اپنے معزز دوست کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے کہ ارتقائی عمل کو دشمنی یا تمسخر کے پیرائے میں نہ لیا جائے بلکہ حقیقت کا ادراک کیا جائے۔ اگر آج دکنی، گوڈوی اور امیر خسرو کے زمانے کی اُردو کو سامنے رکھا جائے تو آج کی اُردو بہت مختلف ہے اور اُردو بھی اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے مختلف ثقافتوں سے اختلاط کرتے ہوئے یہاں پہنچی ہے لیکن تاریخ کا طالب علم اس ارتقاء کو سامنے رکھے بغیر نہ تو اس زبان کو سمجھ پائے گا اور نہ ہی ہونے والی ثقافتی و تمدنی تبدیلیوں کو سمجھ پائے گا۔ دنیا کی تمام تہذیبوں کی طرح سندھ بھی ایک قدیم تہذیب ہے لیکن اس میں جمود نہیں ہے کیونکہ جمود ہمیں اس کرئہ ارض پر کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ نہ تو کوئی نسل دائمی ہے نہ کوئی زبان۔ زبانیں بھی اثرات لیتی ہیں اور اختلاط سے نسلوں کی ہیئت بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عرب نہ ہوتے ہوئے بھی عرب کے جد کہلائے۔ اسی طرح اس خطے میں مخدوم نوح کی شکل میں صدیقی بھی آئے، شاہ بھی آئے اور اگر بہت پیچھے چلے جائیں تو آریا بھی آئے۔ آریائوں سے لے کر تقسیم ہند تک کا سفر ایک قدیم ارتقاء کا مظہر ہے لیکن اس میں جمود رہا۔ اس کو ماننے پر میں تیار نہیں کیونکہ ارتقاء ہی زندگی اور حرارت کا ثبوت ہے۔