لاہور ( تجزیہ ،پرویز بشیر ) عمران خان کی موجودہ حکومت کو گرانے کی تحریک دن بدن کمزور ہو رہی ہے اور ہر آنے والا دن حکومت کے اعتماد میں اضافہ کر رہا ہے۔ طاہر القادری کی جانب سے رائے ونڈ نہ جانے کا اعلان بھی اس حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل ہے اور اس اعلان کے بعد حکومت کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ طاہر القادری نے بھی رائیونڈ جانے کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے ۔عمران خان کی تحریک کی سب سے بڑی کمزوری اپوزیشن کا متحد نہ ہونا ہے۔ تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ 24ستمبر کو رائے ونڈ کی طرف کوچ کرنے کے اعلان کے بعد پے در پے ایسے واقعات پیش آئے کہ عمران خان اور طاہر القادری کو اپنے اعلانات اور موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ایک تو دھچکہ اس وقت لگا جب جہلم اور بورے والا کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو فتح اور تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عوام الناس اپوزیشن کے پراپیگنڈے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اور پاناما لیکس پر ان کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ انتخابات 31اگست کو ایسے وقت ہوئے جب عمران خان اور طاہر القادری حکومت کے گھر جانے کی باتیں کر رہے تھے ۔ ان انتخابات سے ظاہر ہوا کہ سیاسی فضا میں وہ ہیجان اور اضطراب موجود نہیں جو کہ وہ بیان کر رہے ہیں۔ پھر 3ستمبر کی عمران خان کی شاہدرہ سے فیصل چوک تک اور راولپنڈی میں طاہر القادری اور شیخ رشید کی کمزور ریلیوں نے حکومت کے اعتماد اور حوصلوں میں مزید اضافہ کر دیا اس دوران سپیکر کی جانب سے عمران خان کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے اور نواز شریف کا ریفرنس مسترد کرنے کے اپنے مضمرات سامنے آئے۔ اسی دوران اپوزیشن کی پارٹیاں رائے ونڈ کی جانب احتجاج کرنے کی مخالفت کرتی رہیں۔ چوہدری شجاعت کا بیان بھی اہمیت اختیار کر گیا کہ رائے ونڈ جانا غلط روایت ہو گی۔ گزشتہ روز طاہر القادری نے بھی اس فیصلے کو غلط قرار دیا ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا کہ بعض معاملات پر اس مرتبہ عمران خان اور طاہر القادری ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اگر اس کو اختلاف نہ کہیں تو کم ا ز کم اس کو مختلف آراء کہا جا سکتا ہے۔ اب عمران خان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ وہ تنہا رائے ونڈ قافلہ لے جا کر سیاسی و معاشرتی دبائو برداشت کرنے کے علاوہ سیاسی جوا بھی کھیلیں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) جس انداز میں رائے ونڈ کے دفاع کا جارحانہ انداز میں ذکر کر رہی ہے اس سے تحریک انصاف کے سنجیدہ افراد اس ریلی یا جلسہ میں شرکت سے احتراز کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس صورتحال میں آئندہ چند روز میں دونوں جماعتیں اپنے کارڈ کس طرح کھیلتی ہیں۔ 2014ء اور اب کے احتجاج میں یہ نمایاں فرق ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کسی تیسری قوت یا تھرڈ ایمپائر کے سہارے کا تاثر نہیں دے رہے۔ دن بدن کمزور