سکھر(بیورو رپورٹ)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ہم سیاستدان بیوی سے کم، عوام سے زیادہ ڈرتے ہیں، کیونکہ عوام شکوہ او ر ناراضگی میں دیر نہیں کرتے، میرا پوتا کراچی میں پڑھتا ہے میں چاہتا ہوں کہ سندھ میں پرائمری اسکولوں کی تعلیم بھی اس معیار کی ہو کہ میں اپنے پوتے کو سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھا سکوں جہاں عام غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں، 70کی دھائی میں سندھ کا تعلیمی معیار اتنا بہتر تھا کہ پنجاب سے بچے یہاں پڑھنے آتے تھے ، اتفاق سے اب ہم اتنے مجبور اور بے بس ہیں کہ وہ تعلیمی معیار برقرار نہیں رہا ہے، سندھ میں بڑا ٹیلنٹ موجود ہے مگر انہیں موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ میرے حلقہ انتخاب کے چھوٹے گاؤں باغ پئی کی بچی نے دنیا لیول پر تیسری پوزیشن حاصل کی جس کے لئے میں نے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے مگر افسوس دونوں حکومتوں نے بچی کو اپنا نہیں کیا، وہ سکھر پبلک اسکول میں سالانہ ایوارڈ تقسیم کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔اس موقع پر ڈائریکٹر آئی بی اے نثار احمد صدیقی سمیت دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت کو گذارش ہے کہ وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرح سندھ میں پرائمری ایجوکیشن کمیشن بنائے، ماضی میں ہم اساتذہ کے اسکول نہ آنے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹنے کی دعائیں کیا کرتے تھے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ اساتذہ ایسی دعائیں کرتے ہیں کہ بچے اسکول نہ آئیں اور وہ آرام کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ 1988ء میں جب وزیر تعلیم تھا تب کاپی کلچر ختم کرنے کے لئے انٹری ٹیسٹ کی بنیاد ڈالی اور میرٹ پر بھرتیوں کو ترجیح دی۔سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی، تاکہ سرکاری اداروں میں معیار تعلیم بہتر ہو ، امیر ، غریب، چھوٹے ، بڑے تمام لوگوں کے بچے سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کریں، اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض احسن انداز میں ادا کریں اور بچوں کے ٹیلنٹ کو اجاگر کریں۔اس موقع پر ڈائریکٹر آئی بی اے نثار احمد صدیقی نے کہا کہ سندھ میں 40فیصد بچے اسکول نہیں جا تے اور افسوس ہے کہ 60فیصد پڑھنے والے بچوں کا تعلیمی معیار انتہائی خراب ہے کہ پانچویں جماعت کے بچے کو دوسری جماعت کا مائینس، پلس کا حساب نہیں آتا، نصابی حوالے سے بھی وقت کی جدت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، افسوس یہ ہے کہ پڑھائی کے لئے بی ایڈ کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کو اپنے سبجیکٹس کے نام یاد نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ کاپی کلچر کے باعث میرٹ والے بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے،آپ ہماری مدد کریں تاکہ مل کر کاپی کلچر کے ناسور کو ختم کیا جا سکے، پبلک اسکول میں کاپی کلچر کو مکمل طور پر ختم کیا گیا ہے، کاپی کلچر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بورڈ میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔سالانہ ایوارڈ تقریب کے دوران نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو ایوارڈ دیئے گئے، جبکہ تقریب کا اختتام سندھی گیت ہوجمالو سے کیا گیا۔