اسلام آباد(طارق بٹ)طاہر القادری کے رائیونڈ مارچ سے اعلان لاتعلقی نے سب کو حیران کردیا‘حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا۔پاکستان عوامی تحریک کی غیر موجودگی میں عمران خان کا شو، پرامن احتجاج ثابت ہوسکتا ہے جس سے انتظامیہ کے لیے بھی آسانی ہوگی۔تفصیلات کے مطابق،پاکستان عوامی تحریک (پیٹ) کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے رائیونڈ مارچ سےمکمل طور پر اعلان لاتعلقی کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کردیاہے۔ان کا یہ کہنا کہ وہ مارچ کے ساتھ کوئی ٹرک نہیں لائیں گے، ان کے پچھلے موقف سے متصادم ہے جس میں انہوں نے متعدد بار سیاسی عدم استحکام، انارکی اور انتشار کی بات کی تھی۔تاہم ان کے موجودہ موقف سے موجودہ حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا کیوں کہ وہ ہمیشہ ان کی پر تشدد سیاست سے پریشان رہے ہے، جس کی واضح مثال2014 کے دھرنوں میں سامنے آئی تھی۔تاہم ان کا حالیہ بیان رائیونڈ مارچ کے لیے بظاہر کسی جھٹکے سے کم نہیں جو کہ مزید خطرنا ک ہوسکتا تھا اگر طاہر القادری اپنے آپ کو اس میں شامل کرلیتے۔پیٹ کی غیر موجودگی میں عمران خان کا شو، پرامن احتجاج ثابت ہوسکتا ہے۔پیٹ کے سربراہ کے رائیونڈ مارچ سے اعلان لاتعلقی کے بعد انتظامیہ کے لیے مشکل نہ ہوگا کہ وہ اس مارچ سے نمٹ سکے۔خاص طور پر ان حالات میںکہ جب عمران خان کو اپنے احتجاجوں میں عوام کی کم تعداد میں شرکت کا سامنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری کا رائیونڈ مارچ سے اعلان لاتعلقی ایک اچھا فیصلہ ہے کیوں کہ مارچ کے دوران حالات بگڑ سکتے ہیں اور شرکا ء زندگی اور املاک کی حرمت پامال کرسکتے ہیںاور ایسا رائیونڈ میں نوازشریف کی نجی رہائش گاہ کے ساتھ ہوسکتا ہے۔بہت سے لوگوں کی یہ سوچ بھی ہے کہ کاش اس طرح کا فیصلہ وہ 2014 میں بھی کرلیتے جب بہت سے قومی اداروں کی حرمت کے ساتھ کھیل کھیلا گیا تھا۔پیٹ کے کارکنوں نے ہی پی ٹی آئی کو شے دی تھی ، جو اکیلے اس قابل نہ تھی کہ حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بنتی۔2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے زیادہ طویل نہ ہوتے اگر پیٹ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ان کے ساتھ شامل نہ ہوتی۔ان دھرنوں میں دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے قابل ذکر ہم آہنگی کا مظاہر کیا تھا۔سب کو معلوم ہے کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طاہر القادری کے چاہنے والے مسلح تھے اور طویل عرصے تک دھرنے دینے کی بھرپور تیاری کر کے آئے تھے، وہ اپنے قائد کے حکم پر سب کچھ کرنے کو تیار تھے، انہوں نےایسا عملی طور پر کر کے بھی دکھایا تھا۔وہ اپنے ساتھ کٹرز اور کرینیں لائے تھے تاکہ راستے میں رکھے کنٹینرز کو ہٹا سکیں، جس سے اسلام آباد کی کئی شاہرائیں بند کی گئی تھیں۔ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔جب کہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے ورکروں نے ڈی چوک پر مستقل قیام نہیں کیا تھا۔وہ لوگ سورج غروب ہونے کے بعد شو میں حصہ لینے آتے تھے اور کچھ گھنٹوں بعد اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے تھے۔بہت کم تعداد میں لوگوں نے کچھ دنوں کے لیے وہاں خیمے لگائے تھے۔جب کہ طاہر القادری کے کیمپ میں اکثریت دور دراز علاقوں سے وہاں پہنچی تھی، جو کئی ماہ تک وہاں قیام کی نیت کے ساتھ آئے تھے۔وہ اپنے گھر اسی صورت واپس جانا چاہتے تھے، جب وہ اس انقلاب میں کامیابی حاصل کرلیں جس کا ان سے وعدہ کیا تھا۔ایسا نہ ہونے کے باوجودکچھ لوگ بضد تھے کہ وہ لوگ اس جگہ سے نہیں اٹھیں گے۔کچھ ہفتوں بعد جب عمران خان بڑا ہجوم اکھٹاکرنے میں ناکام ہوئے تب بھی اسلام آباد انتظامیہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں، انہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے کوئی ڈر نہیں تھا، بلکہ وہ پرتشدد پیٹ کے کارکنوں سے ڈرتے تھے۔اگر طاہر القادری کے چاہنے والے وہاں موجود نہ ہوتے تو وفاقی حکومت بہت پہلے ہی عمران خان کا شو ختم کروادیتی۔گو کہ اب طاہرالقادری نے اعلان کیا ہےکہ ان کا رائیونڈ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ حتمی ہے، تاہم بہت سے لوگوں کو اب بھی یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔وہ کسی بھی وقت اپنی سوچ تبدیل کرسکتے ہیں۔2014 میں بھی انہوں نے بلا جھجک کئی بار ایسا کیا تھا۔جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ رائیونڈ جائیں یا پھر اسلام آباد اور انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا تھا۔طاہر القادری کے اعلان سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی خفیہ معاہدہ نہیں ہوا ہے نہ ہو ان کا کوئی مشترکہ اکسرپٹ رائٹر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو کچھ طاہر القادری کررہے ہیں، خاص طور پر شریف خاندان کے کاروبار کے حوالے سےانہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کی ذائی رائے نہیں ہےبلکہ یہ سب کچھ کسی اور کی ایما ء پر ہورہا ہے۔اسی طرح جو کچھ عمران خان کررہے ہیں وہ بھی ان کا ذاتی اقدام نہیں ہے۔وہ جلد بازی کا شکار ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہےکہ تمام سیاسی جماعتوں نے رائیونڈ مارچ سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔وہ ایک بار پھر سیاسی اعتبار سے تنہا ہوگئے ہیں۔وہ اور ان کے رفقاء سیاست دانوں کو یہ یقین دہا نی کروارہے ہیں کہ وہ رائیونڈ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے 5 کلومیٹر دور عوامی ریلی نکالیں گے اور وہ ان کے گھر تک نہیں جائیں گے۔