قائد اعظمؒ کے بعد پاکستان کی سیاست میں عوام کو متاثر کرنے والے اب تک تین نام سب سے زیادہ نمایاں رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، قاضی حسین احمد اور عمران خان۔ قائداعظمؒ تحریک پاکستان کے دوران مشرقی پنجاب کے کسی علاقے میں خطاب فرما رہے تھے ایک دیہاتی بڑے غور سے ان کا خطاب سن رہا تھا اس دیہاتی سے کسی نے پوچھا کہ تم اتنے غور سے تقریر سن رہے ہو کچھ سمجھ بھی آ رہا ہے جس پر دیہاتی بولا میں یہ تو نہیں سمجھتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ انگریزی تقریر کر رہے ہیں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ قائد اعظمؒ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہی وہ ’’اعتماد‘‘ تھا جو مشرقی پنجاب کے اس دیہاتی سے لے کر پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تمام مسلمانوں کو قائد اعظمؒ پر تھا۔ گو کہ قائد اعظمؒ پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے مگر انہوں نے ’’پاکستان‘‘ کو عدالتی فیصلے سے نہیں بلکہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے اعتماد سےحاصل کیا۔ دینی جماعتیں پاکستان میں ہمیشہ سے وسیع حلقہ اثر کی حامل رہی ہیں کیونکہ ’’پاکستان‘‘ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہی کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا لہٰذا پاکستان کے عوام الناس کا دینی جماعتوں سے وابستہ رہنا جہاں عقیدے کا تقاضا تھا وہاں پر سیاسی ضرورت بھی تھی تاکہ اسلامی خلافت یا اسلامی حکومت قائم کی جا سکے جس کے سائے میں پاکستان کے عوام ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام کے تحت زندگی گزار سکیں تاہم بدقسمتی سے پاکستان کی ’’مذہبی قیادت‘‘ فروعی اختلافات اور سیاسی طبقات میں تقسیم رہی گو کہ قراداد مقاصد اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے سمیت 1973ء کا متفقہ آئین منظور کرانا دینی قیادت کے کارناموں میں شامل ہے مگر پھر بھی ’’دینی قیادت‘‘ سیاسی محاذ پر بہت کم ہی کامیابیاں حاصل کرسکی۔ قائد اعظمؒ کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور قاضی حسین احمد کا جو ذکر ہم نے کیا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کے درمیان یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا قابل ذکر سیاستدان نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہے بہت بڑے نام اور بہت ہی محترم شخصیات قائد اعظمؒ کے دور میںبھی تھیں اور اس کے بعد بھٹو صاحب یا قاضی صاحب کے دور سے لے کر آج تک کے دور تک موجود ہیں اور موجود تھیں۔ ان تمام شخصیات کی گرانقدر خدمات کے اعتراف کے بعد ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ عوام کا جو اعتماد قائد اعظمؒ، ذوالفقار بھٹو شہید اور قاضی حسین احمد کو حاصل رہا تھا اس طرح کا بھرپور ’’عوامی اعتماد‘‘ آج اگر کسی شخصیت کو حاصل ہے تو وہ صرف عمران خان ہے۔عمران خان آج اگر ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خان کو نواز شریف سے کوئی ذاتی عناد ہے بلکہ اس کا سادہ اور صاف مطلب یہ ہے کہ خان اس اقتدار کو رخصت کرنا چاہتا ہے کہ جو ظلم کے نظام کا محافظ ہے، خان جب شفاف انتخابات کی بات کرتا ہے تو اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس طرح سے خان اپنے اقتدار کی بات کر رہا ہے بلکہ شفاف اور نئے انتخابات کے ذریعے خان تو درحقیقت تمام دینی، سیاسی اور جمہوری قوتوں کے لئے رستہ کھول رہا ہے کہ اگر کسی کو بھی عوام کا ’’اعتماد‘‘ حاصل ہو جاتا ہے تو وہ آئے اور اقتدار پر بیٹھ کر عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ خان جب کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف جہاد کی بات کرتا ہے تو اس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک محل کے دروازے پر تالا اور کسی ایک فرد کو ہتھکڑی لگانا چاہتا ہے بلکہ وہ اس طرح سے پاکستان کو ترقی یافتہ اور مضبوط بنانا چاہتا ہے کیونکہ کرپشن اور بدعنوانی کسی ایک پارٹی یا خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے میں پھیلا ہوا سرطان اور ناسور ہے کہ جس کو ختم کئے بغیر پاکستان کو ترقی اور امن سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی سلامتی اور سرحدوں کو خطرات لاحق ہیں سامراجی قوتیں اور بعض پڑوسی ممالک اپنے مکروہ ارادوں اور ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان کو ’’حالت جنگ‘‘ میں رکھنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان پاکستان کو حالت جنگ سے نکال کر ’’حالت امن‘‘ میں لانا چاہتےہیں۔ پاکستان کی ضرورت آپریشنز نہیں امن معاہدے ہیں جس کے لئے عمران خان بہت سنجیدہ ہیں۔ عمران غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو خطہ سمیت عالمی سطح پر باعزت مقام دلوانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک نیو دہلی، کابل اور واشنگٹن کے ٹرائیکے کی کوئی اہمیت اور خوف نہیں تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کے لئے خان پرعزم ہے۔ قومی مفادات کا تعین بیرونی ڈکٹیشن یا ڈومور کے توہین آمیز فیصلوں سے نہیں بلکہ اپنی ضروریات اور ترجیحات کی بنیاد پر ہوگا۔ عمران خان کے بھرپور جلسے اور دھرنے خان کی قیادت پر بھرپور عوامی اعتماد کا مظہر ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے خان انقلاب کی نوید بن چکا ہے۔ قائداعظمؒ کا اعتماد، بھٹو کا طوفان اور قاضی کی للکار عمران خان کی آنکھوں اور آواز میں موجود ہے جو سیاسی اور دینی قوتیں آج عمران خان کا ساتھ نہیں دے رہیں یا اس کے مطالبے میں شامل نہیں وہ تاریخی غلطی کا ارتکاب کررہی ہیں۔ عمران خان عوام کے ساتھ اور عوام عمران کے ساتھ اپنی منزل کو ضرور پہنچیں گے۔ حالات کا رخ اور وزرا کی پھسلتی زبان اس بات کی تصدیق کررہی ہے کہ عمران خان کی پیش قدمی کو روکنا اب وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کے بس کی بات نہیں رہی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی ’’پیش قدمی‘‘ محمود غزنوی کے حملوں جیسی ہے کہ جس نے بالآخر بت گراہی ڈالا تھا۔ وہ تمام دینی اور سیاسی قوتیں جو عدل و انصاف سے خالی موجودہ فرسودہ نظام کا خاتمہ چاہتی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ عمران خان کا ساتھ دیں ۔