• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راولپنڈی ،تین نجی ہسپتالوں میں گردوں کی غیر قانونی تجارت و آپریشنز کا انکشاف

راولپنڈی(راحت منیر/اپنے رپورٹر سے)پنجاب میں گردوں کی غیر قانونی تجارت اور ٹرانسپلانٹیشن کے غیر قانونی کارروبار میں مسیحی اور مصلی ملوث پائے گئے ہیں۔ایک سرکاری سپیشل سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راولپنڈی کے تین نجی ہسپتالوں میں گردوں کے غیر قانونی آپریشنز کا انکشاف گردے کے غیر قانونی کارروبار میں ملوث افراد نے کیا ہے۔رپورٹ میں مبینہ طور پر ہسپتال کے ملازمین سمیت 8ایجنٹوں کا بھی زکر ہےجس میں سےایک مصلی ایجنٹ شوکت کا حال ہی میں انتقال ہوچکا ہے۔سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن میں غربت  اور قرضوںکے ہاتھوں تنگ61افراد اپنے گردے بیچ چکے ہیں۔ہیلتھ کیئر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کرائے گے سروےکیرپورٹ راولپنڈی اور سرگودہا کی انتظامیہ کو بھی بھجوائی گئی ہے اور ہدات کی گئی ہے کہ اس پر کارروائی  کی جائے۔پنجاب حکومت کی طرف سے بھجوائی گئی سپیشل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گردے بیچنے والوں کی اکثریت ان پڑھ  ہےجو ان ہسپتالوں کی بھی نشاندہی نہیں کرسکتے جہاں ان کے گردے نکالے گئے۔تاہم ان سے ملنے والی معلومات میں راولپنڈی کے تین ہسپتالوں کڈنی سنٹر جی ٹی روڈ،ہارٹ انٹرنیشنل اور جھنڈا چیچی کے قریب واقع جناح ہسپتال کی نشاندہی ہوئی ہے۔رپورٹ میں اس کارروبار میں ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے 8 افراد کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔جن میں مصلی اور مسیحی شامل ہیں۔جن میں مبینہ طور پر جناح ہسپتال کا ملازم تنائو مسیح،راولپنڈی کا مظہر بشیر،کوٹ مومن کا مصلی محمدافضل ولدمیمند خان،سرگودہا کا منیر احمد ولد بشیر محمد مصلی،سرگودہا کا ہی محمد اقبال ولد محمد اسما عیل،کڈنی سنٹر راولپنڈی کا ملازم خالد مسیح،کوٹ مومن کا مصلی ارشد اور کوٹ مومن کا ہی ایک ایجنٹ شوکت ولد مصطفی (جو حال ہی میں مر گیا ہے)ملوث ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوٹ مومن کے زیادہ تر ڈونرز غریب مصلی اور مسیحی ہیں۔جو بڑے جاگیر داروں اور زمینداروں سے قرض لے کر واپس نہیں کرسکتےجس کی ادائیگی کیلئے ان کو گردے بیچنے پڑے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ گردے عطیہ کرنے والوں کو بعد میں مناسب طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتی جس کے باعث ان کو جان لیوا بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔رپورٹ میں سرگودہا کی صورتحال کے باعث ایسے علاقوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیاہے جو غیر ترقی یافتہ ہیں اور جہاں غربت،پسماندگی،بے روزگاری زیادہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیومن آرگن اینڈ ٹشوز ایکٹ2010کے تحت انسانی اعضاء کی فروحت پر پایندی ہے۔عطیہ کی بھی اجازت خونی رشتوں میں ہے اور غیر خونی رشتوں میں عطیہ کیلئے بھی ایک طویل اور پیچیدہ نظام اسی لئے اپنایا گیا ہے تاکہ اس میں کوئی مالی فائدہ نہ لیا جاسکے۔رپورٹ کے ساتھ باقاعدہ راولپنڈی اور سرگودہا کی انتظامیہ کو ایک مراسلہ بھجوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اس پر فوری کاروائی چاہتے ہیں۔رپورٹ کے ساتھ ڈونرز کو ملنے والے معاوضے سمیت دیگر تفصیلات بھی ہیں۔جس میں بتایا گیا ہےڈونرز نے ایک گردہ تیس/چالیس ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ /ایک لاکھ اسی ہزار روپے تک فروحت کیا ۔ رپورٹ میں ایک ایجنٹ مظہر جس کا تعلق راولپنڈی کھنہ پل کے علاقے سے بتایا گیاہے۔جس کا فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔جس پر رابطہ کی کوشش کی گئی تو کال سننے والے نے پہلے تسلیم کیا کہ وہ مظہر اور کھنہ پل کے علاقے سے تعلق ہے۔جب اس سے گردوں کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ مظہر نہیں ہے۔غلط نمبر ملایا گیا ہے ۔رپورٹ کے حوالے سے ہارٹ انٹرنیشنل ہسپتال کے ایک انتظامی افسر چوہدری عامر منیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے ہسپتال میں کڈنی ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔لیکن سو فیصد قانونی طریقے سے ہوتا ہے۔اور اس کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے قائم ادارے ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ بورڈ سے منظوری لےکر کیا جاتا ہے۔بورڈ سی ایم پنجاب کے ماتحت 17افراد پر مشتمل ہے۔ہمارا ادارہ رجسٹرڈ ہے۔اور کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا۔جناح میموریل ہسپتال کے ٹرانسپلانٹ سرجن بریگیڈیئر رئوف نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہمارے ہسپتال میں صرف بلڈ ریلیشن افراد کا قانونی طریقے سے ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔ہمارا ہسپتال پہلے فیڈرل حکومت کے پاس رجسٹرڈ تھا اب ہم پنجاب حکومت کے پاس رجسٹرڈ   ہیں اور ان کی بنائی گئی پالیسی کے تحت کام کررہے ہیں۔کوئی چیز غیر قانونی نہیں ہے۔جو بھی ادارہ آکر چیک کرنا چاہتا ہے کرسکتا ہے۔پنجاب حکومت کی اجازت اور ہومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کی اجازت سے کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ٹرانسپلانٹ نہیں چاہتی تو پابندی لگا دے کہ ٹرانسپلانٹ نہیں ہوگا۔ہم نہیں کریں گے۔ہم تمام کام حکومت کی اجازت اور قانونی طریقے سے کرتے ہیں۔انہوں نے تنائو مسیح نامی ملازم(جس کا رپورٹ میں حوالہ موجود ہے)کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ اس نام کا کوئی شخص ہمارا ملازم نہیں ہے۔اسی قسم کے خیالات کا اظہار جناح میموریل ہسپتال کے انتظامی افسر کیپٹن گل نے بھی کیا اور کہا کہ ہم کسی قسم کے غیر قانونی کام کی سپورٹ کرتے ہیں نہ ہی کرتے ہیں۔ہمارا ہسپتال پنجاب حکومت کے کے پاس رجسٹرڈ ہے اور ان کی اجازت سے کڈنی ٹرانسپلانٹ صرف بلڈ ریلیشن کے کئے جاتے ہیں۔جس کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔جبکہ تیسرے نجی ہسپتال کڈنی سنٹر کے ایکس چینج کے لینڈ لائن نمبرز پر متعدد مرتبہ رابطہ کیا گیا تا ہم کسی سے بات نہیں ہو سکی۔واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ڈویژنل ڈرگ کنٹرولر راولپنڈی نوید انور کی سربراہی میں راولپنڈی ایئر پورٹ کے قریب واقع علاقے گلزائر قائد میں ایک غیر قانونی کڈنی ٹرانسپلانٹ سنٹر پکڑا گیا تھا۔جہاں محمد عامرنامی ڈونر انتقال کرگیا تھا ۔جس کا نکالا گیا گردہ بھی برآمد ہوگیا تھا۔اس کیس میں واہ کینٹ کی نرس گلشن نثار،پنڈورہ کی نرس گیتا کنول،ڈاکٹر شفیع،ڈاکٹر مسعود،ڈسپنسر نعیم اشرف لاہور اور امتیاز تبسم آذاد کشمیر گرفتار ہوئے تھے۔ کیس کی پولیس کے علاوہ محکمہ صحت اور دوسرے ادارے بھی تحقیقات کررہے تھے۔لیکن ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔اور کیس زیر سماعت ہے۔زرائع کے مطابق اس سنٹر میں کڈنی ڈونرز زیادہ تر ٹنڈو آدم خان سندھ سے لائے جاتے تھے۔جن کو مختلف بہانوں سے راولپنڈی لاکر ان کے گردے نکالے جاتے تھے۔زرائع کے مطابق تاحال یہ علم نہیں ہوسکا کہ گردے نکال کر کہا ں لیجائے جاتے تھے۔ ایک گردہ ساڑھے تیرہ لاکھ روپے میں بیچا جاتاتھا۔ اور گردہ دینے والے کو صرف ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے دیئے جاتے تھے۔زرائع کے مطابق گردے بیچنے والوں کو ایجنٹ شوکت گھیر کر لاتا تھا۔جس کا زکر پنجاب حکومت کی سروے رپورٹ میں بھی ہے۔ جو اب اس دنیا میں نہیں رہا ہے۔ 
تازہ ترین