• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدیقی صاحب بہت ضعیف ہوچکے تھے اور مجھے وہ یہ واقعہ سناتے ہوئے بہت پرجوش نظر آرہے تھے بلکہ وہ مکّا لہرا لہرا کر واقعہ میں اپنے جذبات ڈال رہے تھے۔ صدیقی صاحب بتا رہے تھے کہ 1982ء میں پاکستان اور بھارت ایشین گیمز میں ہاکی کے فائنل میں آمنے سامنے تھے۔ نیو دہلی کا نیشنل ہاکی اسٹیڈیم 25 ہزار تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صدیقی صاحب نے واضح کیا کہ اس وقت کرکٹ کا کھیل اتنا مقبول نہیں تھا جتنا آج کل ہے، کرکٹ کی جگہ ہاکی زیادہ مقبول تھی اور پاک بھارت بڑے کانٹے کے مقابلے ہو ا کرتے تھے۔ اسی لئے بھارت میں منعقد ہونے والے ایشین گیمز میں ہاکی میچ گیمز کی معراج سمجھا جارہا تھا۔ بھارتی تماشائی ہاتھوں میں اپنے وطن کے چھوٹے چھوٹے قومی پرچم اٹھائے اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے نعرے بازی کر رہے تھے۔ فائنل میچ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی اپنی پوری فیملی کے ہمراہ گرائونڈ میں موجود تھیں۔ بھارتی صدر بھی فائنل دیکھنےا سٹیڈیم میں براجمان تھے۔ اس وقت امیتابھ بچن اپنے فلمی کیریئر کے عروج پر تھے، وہ بھی دیگر بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کے ہمراہ وی آئی پی انکلوژر میں موجود تھے۔ صدیقی صاحب نے بتایا کہ میں بھی وی آئی پی انکلوژر کے بالکل ساتھ چند پاکستانی ایتھلیٹس اور کچھ دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ ا سٹیڈیم میں موجود تھا، بھارتی وزیراعظم سمیت وی آئی پی انکلوژ ر میںبیٹھے دیگر خواتین و حضرات بھی مجھے دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستانی ٹیم میں کلیم اللہ ، منظور جونیئر، حسن سردار ، حنیف خان اور سمیع اللہ جیسے معروف کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں ہاکی کے کھیل سے دلچسپی رکھنے والے جن خواتین و حضرات نے حسن سردارکا کھیل نہیں دیکھا تو پھر انہوں نے ہاکی کے کھیل کا حسن نہیں دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت بھارتی ٹیم کے کپتان بھی معروف مسلمان کھلاڑی ظفر اقبال تھے۔ سچی بات ہے کہ میں تو اسٹیڈیم میں نعرے بازی اور بھارتی عوام کا جوش وجذبہ دیکھ کر اس لئے بھی بہت خوفزدہ تھا کہ اگر پاکستانی ٹیم ہار گئی تو مجھے کہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہوجائے۔ اسی شور وغل اور نعرے بازی میں میچ شروع ہوا توبھارت نے اپنے کپتان ظفر اقبال کے ذریعے ایک خوبصورت موو پر پاکستان کے خلاف پہلا گول کردیا۔ گول کیا ہوا کہ جیسے اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوںکو کسی راکٹ کی طرح شعلہ دکھا دیا گیا ہو اوروہ رکنے کا نام ہی نہ لے رہا ہو۔ ہمارے بالکل سامنے والی قطار کے تماشائی جس میں سکھ بھی شامل تھے، اس گول پر خوشی سے ناچ رہے تھے اور بیٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے جبکہ اسی قطار کے ساتھ ہی ا سٹیڈیم کا ایک بہت بڑا ستون بھی تھا۔ میں نے اگلی قطار والوں سے درخواست کرتے ہوئے کہاکہ بھائی ایک طرف آپ کھڑے ہوگئے ہیں اور دوسری طرف ستون ہے، جس کی وجہ سے اب ہم میچ نہیں دیکھ پا رہے۔ براہ مہربانی آپ بیٹھ جائیں۔ صدیقی صاحب کچھ دیر خاموش ہوئے اور پھر سیدھے ہوکر بیٹھتے ہوئے بتانے لگے کہ ان تماشائیوں نے تکبر میں معلوم ہے کیا جواب دیا،وہ بولے تم مسلمان آج اپنے گرو کو ،اپنے اللہ کوبلا ئوجو یہ ستون بھی ہٹا دے اور میچ بھی جتا دے، میں بحث کی بجائے خاموش ہوگیا۔ ہم اس جذباتی ہجوم سے کوئی پھڈا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن شاید اللہ کو ان تماشائیوں کا یہ تکبر پسند نہیں آیا اور پھر تو پاکستانی ٹیم نے ایسا اکائونٹ کھولا کہ نہ صرف بھارتی ٹیم کا گول برابر کیا بلکہ ہاکی کا ایسا خوبصورت کھیل پیش کیا کہ جسے کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ کچھ دیر پہلے تماشائی جو اپنی دم پرکھڑے تھے، امیتابھ بچن منہ میں انگلیاں دے کر سیٹیاں بجا رہے تھے، انہیں جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ ابھی میچ ختم ہونے میں کافی دیر تھی کہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی ا سٹیڈیم سے اٹھ کر چلی گئیں حالانکہ انہوں نے وکٹری اسٹینڈ پر کھلاڑیوں کو میڈلز پہنانا تھے، جب میچ ختم ہوا تو پاکستان بھارت کے ایک گول کے مقابلے میں سات گول سے کامیاب ہوچکا تھا اور آپ یقین جانئے کہ ہماری اگلی قطار میں جو تماشائی ناچ ناچ کر طوفان بپا کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے مڑ کر کہا بھئی آپ کا گرو اور آپ کا اللہ سچا ہے، جہاں میچ جیتنے کی خوشی تھی وہاں اس غیرمذہب کا ہمارے اللہ کی سچائی کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑی روحانی خوشی بھی تھی ۔
گزشتہ روز پاکستانی ہاکی ٹیم نے بھارت میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں جس طرح شاندارکھیل پیش کرکے بھارت کو چت کیاہے، اس نے مجھے صدیقی صاحب کا کچھ عرصہ قبل سنایا ہوا واقعہ یاد کرادیا ہے۔ لیکن بھارت نے اپنی روایتی عداوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کی طرف سے جیت کے جشن پر دبائو ڈالتے ہوئے ایف آئی ایچ سے دو کھلاڑیوں کے خلاف پابندی لگوادی جس کی وجہ سے پاکستان جرمنی کے خلاف وہ کھیل پیش نہ کرسکا جو اس نے بھارت کے خلاف پیش کیا تھا، لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک بار پھر قوم کے سرفخر سے بلند کردیئے ہیں ، لیکن ہمیں یہ یاد رکھناچاہئے کہ قمیضیں اتار کر خوشی منانے سے سجدہ ریز ہونا زیادہ اچھا عمل ہے…!!
تازہ ترین