• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16 دسمبر کی تاریخ تقسیم پاکستان کے حوالے سے ویسے ہی ایک تکلیف دہ احساس رکھتی تھی کہ اسی دن ایک بار پھر خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ایک آرمی پبلک اسکول اور کالج میں دہشت گردی کے ذریعے قیامت صغریٰ برپا کی گئی۔ تادمِ تحریر اسکول میںشہادتوں کی تعداد سوا سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ واقعے کی مذمت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کے اعلانات بدستور سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے آرہے ہیں لیکن شاید اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کا اِدراک کرنا ہوگا جس کا سامنا وطن عزیز کو ہے۔ یہ امت کا المیہ ہے یا ہمارا قومی سانحہ ، اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہم ایسے معاملات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انسانوں کے سر اتنی بے دردی سے اُتارے جا رہے ہیں جس کی نظیر زمانہ جاہلیت میں بھی مشکل سے ملے۔ وارسک روڈ، پشاور پر قائم آرمی پبلک اسکول میں جو واقعہ رونما ہوا اس واقعے پر کئی روز تک ملک کے ٹیلی ویژن چینل مذاکرے اور مباحثے نشر کردیں گے ۔ حکومت اپنے دعوے کرتی رہے گی۔ اپوزیشن تنقید کے سہارے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرے گی لیکن کیا ہم حقیقی معنوں میں دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم دہشت گرد وں کے خلاف ایک آواز ہو کر صف آرا نہیں ہوجاتے۔ عمومی طور پر جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ معصوم بچوں او رخواتین کو اس طرح خاک و خون میں نہیں نہلایا جاتا جس طرح ا س واقعے میں ہوا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے،کم ہے۔ جس طرح انہوں نے علم کی ننھی شمعیں گل کی ہیں، ہمارا یقین ہے کہ اس سے علم کا راستہ نہیں روکا جاسکے گا اور بجھتی ہوئی ان ننھی شمعوں نے ان گنت نئی شمعیں روشن کی ہیں۔ اِس وقت بھی میں ایک ایسی تقریب میں موجود ہوں جہاں ان شہید ہونے والے معصوم بچوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔یہ پروگرام متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر منعقد کیا جارہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ طالبان کے خلاف جو مؤثر آواز پاکستان میں بلند ہوئی، اس میں سب سے توانا آواز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ان کی جماعت کی رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس آواز کو بلند کرنے کی ان جماعتوں نے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔گزشتہ کئی ماہ سے الطاف حسین ایک اور خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں، وہ خطرہ داعش کا ہے، جس کا سنجیدگی سے نوٹس لیاجانا چاہئے۔ گو کہ اربابِ اقتدار بدستور داعش کی موجودگی سے انکار کر رہے ہیں لیکن موجودہ واقعہ ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یہ دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ کورکمانڈر کانفرنس میں آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں میں واپسی کے منصوبے کو حتمی شکل دینا تھی اور یہ واقعہ ضربِ عضب میں ملنے والی کامیابیوں کا جواب کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس حملے کے لئے ایسے اسکول کو چنا گیا جس کے ساتھ آرمی کا نام جڑا ہوا ہے۔ یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ نظریات کی جنگ کئی دہائیوں پر محیط رہ سکتی ہے اور ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جنگ کتنا عرصہ اور چلے گی۔ جہاں پر افواج پاکستان طاقت سے ان سماج دشمن، امن دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کا قلعہ قمع کر رہی ہیں وہیں معاشرتی، سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ان کا راستہ روکنے کے لئے شعور و آگہی پھیلانےکی ضرورت ہے۔ اس واقعے پر بہت سی سیاسی جماعتوں نے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر اسکول کے طلباء و طالبات، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طالب علم جمع ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک منظم پروگرام کے ذریعے ان باطل پرستوں کے خلاف احتجاج کو ریکارڈ کرایا جائے۔ یہ سانحہ ارتحال اس امر کی طر ف ہماری توجہ مبذول کرا رہا ہے کہ آپریشن کے باوجود بھی دشمن کمزور نہیں ہوا۔ وہ اپنے سر پر موت لئے ہمارے خلاف مصروفِ عمل ہے۔ تعلیمی ادارےاور درسگاہیں، آج بھی ان کے نشانے پر ہیں۔ وہ سیاسی و سماجی قوتیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتیں،بدستور خطرے میں ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز ان کا نشانہ بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ ملک میں احتجاج کی سیاست بھی کی جارہی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والےطالبان کے خلاف آواز بلند کرنے کو آمادہ نظر نہیں آتے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے جس کا سامنا وطن عزیز کو ہے۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم کیے جانے والے کمیشن کی تشکیل کا راستہ اپنے ایک فیصلے کے ذریعے روک دیا ہے۔ اس سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ملک میں بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ یہ فیصلہ ان معنوں میں خاصا حوصلہ افزا ہے کہ فاضل بنچ نے ریمارکس اور آبزرویشن کا سہارا لئے بغیر اپنے فیصلے کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس کلیئے کو سامنے رکھا ہے کہ عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں، جج نہیں بولا کرتے۔ لہٰذا ملک میں سیاسی بے چینی کا خاتمہ کرنے کے لئے حکومت اور احتجاج کرنے والی سیاسی جماعت ادراک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنا اولین مقصد بنائے اور اس جنگ کو جتنی جلد ممکن ہوسکے اپنے انجام تک پہنچائے بصورتِ دیگر انارکی اور انتشار کے نتیجے میں ملک کو نقصان ہوگا جس کی ذمہ دار جتنی حکومت ہوگی اتنی ہی وہ سیاسی جماعتیں ہوں گی جو سڑکوں پر سیاست کر کے اپنی عارضی سیاست چمکائے ہوئے ہیں۔
وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنے آپ کو منظم کریں۔ باہر سے آنے والی امداد جو دہشت گردوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے، اس کا راستہ روکیں۔ آئی ایس آئی ایس یا داعش کا راستہ قبل از وقت روکنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر آنے والی نسلیں نہ تو سیاست دانوں کو معاف کریں گی اور نہ ہی ان قوتوں کو جو فیصلہ ساز ہونے کے باوجود فیصلہ نہ کرسکیں۔ میرا اشارہ ملکی پارلیمنٹ کی جانب ہے۔
تازہ ترین